'چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے 5 ججز کو فارغ کر سکتے ہیں'

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں 'اِن لائن' 3 جج صاحبان کو نظرانداز کرتے ہوئے چوتھے جج کی ایلیویشن کی گئی اور اس عمل کا کوئی لاجیکل جواز بھی پیش نہیں کیا گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد اس 'سٹیٹس کو' کو خطرہ لاحق ہے۔

'چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے 5 ججز کو فارغ کر سکتے ہیں'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس پاکستان بنتے ہی امکان پیدا ہو گیا ہے کہ سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے ہائی کورٹس سے ترقی پا کر سپریم کورٹ میں آنے والے 5 جج صاحبان کی ترقی کالعدم قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف نے۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں 5 ایسے جج صاحبان ہیں جن کو سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے ہائی کورٹس سے ایلیویٹ کیا گیا۔ امکان ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ ان تمام تعیناتیوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان ججز کو واپس ہائی کورٹس میں بھجوا دے گی اور ایک بار پھر نئے طریقے سے سنیارٹی کے اصول کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نئے ججز کی تعیناتی کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔

پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے اور آج پہلے روز چیف جسٹس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر فل کورٹ سماعت کا آغاز کیا ہے۔ اہم پیش رفت یہ ہے کہ یہ سماعت سرکاری نیوز چینل پر براہ راست نشر کی گئی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں 4 سابق چیف جسٹس صاحبان شریک نہیں ہوئے جن میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ 4 جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مخالف تھے۔

کامران یوسف کے مطابق موجودہ چیف جسٹس کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر فیصلہ آنے تک متعلقہ کیسز کی سماعت روکنے کی حمایت کی گئی تھی تو ناقدین کی جانب سے یہ تاثر سامنے آیا تھا کہ جب اختیار نہیں ہوتا تب ایسی باتیں کرنا آسان ہوتا ہے اور جب قاضی فائز عیسیٰ خود چیف جسٹس بنیں گے تو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت بنچ کی تشکیل کا اختیار کمیٹی کو نہیں دیں گے۔ لیکن اس کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ ان کے نظریے میں چیف جسٹس بننے کے بعد بھی تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے آئندہ تین ماہ کے لیے باقاعدہ ایک 'روڈمیپ' تشکیل دیا ہے جس میں ان کی اولین ترجیح سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ میں اصلاحات کرنا ہے۔ خواہ وہ چیف جسٹس کے اختیارات ہوں، بنچ کی تشکیل ہو یا پھر آرٹیکل 184 (3) کے تحت ازخود نوٹس لینے کے حوالے سے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات ہیں، وہ ان کو ریگولیٹ کریں گے۔

قاضی فائز عیسیٰ کا شمار ان جج صاحبان میں ہوتا ہے جن کا یہ مؤقف ہے کہ ملک بھر کی ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ میں کسی بھی جج کی ایلیویشن میں سنیارٹی کے اصول کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں 2 ججز کی ایلیویشن کے معاملے پر ان کا پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ ڈیڈلاک پیدا ہو گیا۔ سابق چیف جسٹس کے پاس جوڈیشل کمیشن میں اکثریت نہیں تھی کیونکہ اس وقت پی ڈی ایم کی حکومت تھی اور جوڈیشل کمیشن میں وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور بار کونسل کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے ان ممبران نے قاضی فائز عیسیٰ کے مؤقف کی حمایت کی تھی کہ کسی بھی جج کی ایلیویشن میں سنیارٹی کے اصول کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے۔ اگر آپ کسی سینیئر جج کو نظرانداز کرتے ہیں تو اس کی مضبوط اور لاجیکل وجہ ہونی چاہئیے۔ جیسا کہ اس جج کا کنڈکٹ ٹھیک نہیں ہے یا وہ جج قابل نہیں ہے۔ اگر کوئی مناسب وجہ ہے تو اس کے بجائے کسی دوسرے ہائی کورٹ جج کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ایلیویٹ کر سکتے ہیں۔

پی ڈی ایم حکومت اور سابق چیف جسٹس کے مابین ڈیڈلاک جب مزید بڑھا تو پی ڈی ایم نے حیران کن طور پر عمر عطا بندیال کی حمایت کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف نے اس مسئلے کو ختم کرانے کے لیے فریقین کے مابین کوئی مبینہ ڈیل کروائی تھی اور عمر عطا بندیال نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ اگر آپ مرضی کے جج لگانے دیں گے تو پی ڈی ایم کے ساتھ نرمی اختیار کریں گے تاہم بعد میں سابق چیف جسٹس نے حسب منشا کام کیا اور مبینہ ڈیل کی پاسداری نہیں کی۔ پی ڈی ایم اور چیف جسٹس بندیال کے مابین ہونے والی اس مبینہ ڈیل کے نتیجے میں ججز کی تقرری کے حوالے سے قاضی فائز عیسیٰ کا مؤقف نظرانداز کر دیا گیا۔

جسٹس سیٹھ وقار مرحوم جب پشاور ہائی کورٹ کے جج تھے اور ماضی میں جب انہیں نظرانداز کر کے جونیئر جج کو سپریم کورٹ میں ایلیویٹ کیا گیا تو انہوں نے اس تقرری کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، انہیں نظرانداز کر کے کیوں کسی جونیئر جج کو سپریم کورٹ میں ایلیویٹ کیا گیا ہے؟ بعدازاں جسٹس سیٹھ وقار کا انتقال ہو گیا اور سپریم کورٹ نے ان کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی۔ اب قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ انٹرنل ریفارمز میں وہ جسٹس سیٹھ وقار کی آئینی درخواست کی بھی سماعت کریں گے۔

پاکستان میں سپریم کورٹ میں تعیناتیوں کے حوالے سے بعض طبقات کی اجارہ داری دیکھنے میں آتی ہے، بعض خاندان کے خاندان سپریم کورٹ میں بھرے ہوئے ہیں۔ کوئی لاہوری گروپ ہے، کوئی حامد خان تو کوئی عاصمہ جہانگیر گروپ ہے۔ سپریم کورٹ کے کچھ جج صاحبان قاضی فائز عیسیٰ کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے سے ان کی اجارہ داری متاثر ہو گی اور وہ ججز کے رشتہ داروں کی تعیناتیوں اور ایلیویشنز کو چیلنج کر دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ 5 جج صاحبان جن کی سپریم کورٹ میں آؤٹ آف ٹرن تعیناتی ہوئی ہے، ان کی ایلیویشن کالعدم قرار دی جا سکتی ہے۔ 3 ججز کی آسامیاں پہلے سے خالی ہیں تو اگر 8 نئے جج تعینات ہوئے تو ناصرف ابھی کے لیے بلکہ آئندہ کے سالوں کے لیے بھی سپریم کورٹ کی ایکویشن تبدیل ہو جائے گی۔

اس سے ناصرف سپریم کورٹ کے اندر لابنگ کا نظام متاثر ہو گا بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی کئی چیلنجز پیدا ہوں گے کیونکہ جب ججز کی تعیناتی ہوتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ نے بھی ورکنگ کی ہوتی ہے کہ کون سا جج کب چیف جسٹس بنے گا اور کس کی کیا رائے ہے۔ اگر 'پرنسپل آف سنیارٹی' کو مدنظر رکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی سے 'پِک اینڈ چُوز' نہیں کر سکے گی۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں 'اِن لائن' 3 جج صاحبان کو نظرانداز کرتے ہوئے چوتھے جج کی ایلیویشن کی گئی اور اس عمل کا کوئی لاجیکل جواز بھی پیش نہیں کیا گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد اس 'سٹیٹس کو' کو خطرہ لاحق ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹانے میں عمران خان کے ساتھ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ یعنی قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید بھی شامل تھے کیونکہ انہوں نے بطور جج فیض آباد دھرنے کے کیس کا ایسا فیصلہ سنایا تھا جس سے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں تھی۔ تاہم اب ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اسٹیبلشمنٹ نے دائر نہیں کیا تھا بلکہ سپریم کورٹ کے اندر کچھ ایسے جج صاحبان ہیں جو نہیں چاہتے تھے کہ قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنیں۔ ان جج صاحبان نے فروغ نسیم سے کہلوایا اور بعدازاں اس میں اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہو گئی۔ اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ صرف استعمال ہوئی تھی۔ اس بارے میں مکمل طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی بلکہ کئی جج صاحبان کا وسیع تر مفاد اسی میں تھا۔

اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ ملک کے ہر ادارے میں ہے۔ خاص طور پر عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو بھی چیف جسٹس آتا ہے اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ضرور ہوتے ہیں اور یہ مفاہمت ہوتی ہے کہ چیف جسٹس صرف اس حد تک جائے گا جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایسی کوئی مفاہمت نہیں کریں گے۔ نئے چیف جسٹس آئین و قانون کے خلاف کسی عمل کی حمایت کریں گے اور نا ہی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کوئی فیصلہ دیں گے۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ بالکل کنارے پر ہے اور انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے تاثر دیا ہے کہ انہیں نئے چیف جسٹس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ماضی میں قاضی فائز عیسیٰ اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین اختلافات اور لڑائی کا بھگتان موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔