Get Alerts

عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب: مشرّف اور ضیا کی ابتدائی تقاریر کا حسین امتزاج

عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب: مشرّف اور ضیا کی ابتدائی تقاریر کا حسین امتزاج
عمران خان کا بطور وزیر اعظم قوم سے پہلا خطاب ایک رومان پرور اور افسانوی تقریر پر مبنی تھا۔ چونکہ ہمارے ہاں رومان پروری اور دیومالائی قصے کہانیاں بیحد مقبول ہیں اس لئے عمران خان کی بلند و بانگ دعؤوں اور تخیلاتی تقریر کو بہت سراہا گیا۔ عمران خان جب کرپشن کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا ذکر کر رہے تھے تو جذبات کی رو میں بہتے عوام کے ایک اچھے خاصے حصے کو جہانگیر ترین اور علیم خان کی کرپشن بالکل بھول چکی تھی۔ میرٹ پر لیکچر سنتے وقت کسی بھی نئے پاکستان کے دیوانے کو نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر چھ افراد کے قتل کی ایف آئی آر اور پھر دیت کی رقم دے کر اس مقدمے سے ان کا بری ہو جانا نظر نہیں آیا۔

حکمت عملی تو خان صاحب نے بتائی نہیں، اور ٹیم۔۔۔

سادگی، کفایت شعاری اور غریبوں کے حقوق پر بھاشن دینا بولنے میں اور سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک ایماندار ٹیم اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکمت عملی تو عمران خان نے بتائی نہیں البتہ ان کی ٹیم میں متحدہ قومی مومنٹ، مشرف کی کابینہ کے افراد اور دیگر روایتی سٹیٹس کو کے علمبرداروں کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ عمران خان ہرگز بھی سٹیٹس کو کے خاتمے کے خلاف کوئی سنجیدہ اقدام اٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہم چونکہ میزاجاً جذباتی قوم ہیں اور لاشعوری طور پر الف لیلوی داستانوں پر ایمان کامل رکھتے ہوئے ایک مسیحا کی آمد کے منتظر رہتے ہیں جو پلک جھپکتے ہی ہمارے مسائل کر دے اس لئے ہمیں ایسی جذباتی باتیں اچھی لگتی ہیں جو ہمارے تخیلات کے مفروضات کے عین مطابق ہوں۔

کیا یہ نوکریاں خیبر پختونخوا میں پیدا کر لی ہیں؟

اپنی پہلی تقریر میں جو باتیں عمران خان نے کہیں کم و بیش یہی باتیں پرویز مشرف اور ضیاالحق نے بھی اپنی ابتدائی تقاریر میں کی تھیں لیکن عملی میدان میں دونوں حضرات کچھ خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ عمران خان نے گذشتہ پانچ برسوں میں یہی باتیں کم و بیش ہر موقع پر دہرائیں جو انہوں نے بطور وزیر اعظم قوم سے اپنے خطاب میں کہیں لیکن پانچ برسوں میں نہ تو خیبر پختونخوا میں وہ نوکریاں پیدا کر سکے اور نہ ہی خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو بیرونی مالیاتی اداروں کی دی گئی امداد کے بغیر چلا پائے۔ نہ ہی خیبر پختونخوا میں بیوروکریسی کو وہ سدھار پائے اور نہ ہی وہ کوئی غیر معمولی قسم کی سٹرکچرل اصلاحات اس صوبے میں لا سکے۔ جن قوتوں کے دم پر عمران خان نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر وزارت عظمیٰ کی کرسی تک رسائی حاصل کی ہے ان قوتوں کے بس میں بھی گڈ گورننس اور ٹھوس معاشی پالیسیوں پر عمل در آمد کروانا ممکن نہیں ہے وگرنہ چار ڈائریکٹ مارشل لاؤں کے ذریعے وطن عزیز میں کب کی دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جا چکی ہوتیں۔ اس لئے خان صاحب کو ہرگز بھی عوامی توقعات کو ہمالیہ کی چوٹیوں تک نہیں پہنچانا چاہیے۔ کیونکہ موجودہ صورتحال میں عمران خان کوآئی ایم ایف سے قرضہ مانگنے بھی جانا پڑے گا اور خارجی و داخلی محاذ پر انہیں دفاعی اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن بھی لینی پڑے گی۔

حقائق عوام تک پہنچانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی

ڈی ایچ اے یا بحریہ ٹاؤن کو وہ احتساب کے دائرے میں بھی نہیں لا پائیں گے اور بیرسٹر فروغ نسیم کو وزیر قانون مقرر کرنے کے بعد وہ پرویز مشرف کا احتساب بھی نہیں کر سکیں گے۔ جہاں تک بات وزیراعظم ہاؤس اور اس کا خرچہ کم کرنے کی ہے تو سابق وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم ہاؤس کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے تھے اور ان کے بعد شاہد خاقان عباسی نے تو وزیراعظم ہاؤس میں قیام ہی نہیں کیا تھا۔ چونکہ مین سٹریم میڈیا پر مبشر لقمان اور صابر شاکر جیسے گھس بیٹھئے صحافیوں کی اجارہ داری ہے اس لئے یہ حقائق عوام تک پہنچانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔

دنیا خواہشات اور ہالوسینیشن نہیں بلکہ عملی اقدامات کو مانتی ہے

عمران خان کی موجودہ تقریر پر سر دھننے والے وہ تمام صحافی اور دانشور جو ہوا کے رخ پر چلتے ہیں یقیناً اس وقت اس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے قوم کو ایک ہسٹریائی کیفیت میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ لیکن اس ہالوسینیشن کی کیفیت سے الگ تھلگ ایک حقیقت کی دنیا ہے اور یہ دنیا خواہشات اور ہالوسینیشن نہیں بلکہ عملی اقدامات کو مانتی ہے۔ عملی اقدامات کے لئے جامع اور ٹھوس حکمت عملیاں مرتب کرنا پڑتی ہیں اور ان پر عمل در آمد کرنا پڑتا ہے۔

سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے قومی خزانے میں عملاً ایک روپیہ بھی جمع نہیں کیا جا سکتا

پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر سے عملی دنیا میں کروڑ نوکریاں نہیں پیدا ہو سکتیں اور نہ ہی چندے یا خیرات کی مدد سے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں یا ملکی قرضوں کو اتارا جا سکتا ہے۔ احتساب کے نام پر لوٹی ہوئی اربوں ڈالر کے فرضی قصوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو نادیدہ قوتوں کی مدد سے پابند سلاسل تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے قومی خزانے میں عملاً ایک روپیہ بھی جمع نہیں کیا جا سکتا۔ غریبوں کا احساس کرنے کے باتیں خوش کن ہیں لیکن وزیراعظم ہاؤس میں عین اسی وقت ڈھائی سو کے لگ بھگ ارکان پارلیمان کی سرکاری خرچ پر پرتعیش ضیافت اس احساس کے دعوے کو کھوکھلا ثابت کرتی دکھائی دیتی ہے۔

اسلحہ خریدنے کی بجائے کاپیاں اور پینسلیں خریدنے کی ضرورت ہے

کروڑہا بچوں کے سکول نہ جا پانے اور تعلیمی ایمرجینسی نافذ کرنے کی باتیں دلفریب ہیں لیکن اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے سرکاری خزانے سے غیر تعمیری اخراجات ختم کر کے تعلیم پر لگانے کی ضرورت ہے، یعنی اسلحہ خریدنے کی بجائے سرکار کو بچوں کی کاپیاں اور پینسلیں خریدنے کی ضرورت ہے۔ اور محترم عمران خان نے اس ضمن میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ خارجہ پالیسی چونکہ عمران خان کو اقتدار تک پہنچانے والے ہاتھوں میں ہے اس لئے عمران صاحب نے اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔

خطاب نہیں افسانہ تھا

اس تقریر کو عمران خان کے چاہنے والوں اور ہر آنے والی نئی حکومتوں سے مراعات کے طالب دانشور اور تجزیہ نگار تو بہترین قرار دے سکتے ہیں لیکن درحقیقت عمران خان کا یہ خطاب محض ایک رومان پرور اور افسانوی خطاب تھا جس میں خوابوں اور آسوں کی افسانوی باتوں کی افیون ملا کر کچھ لمحات کے لئے عوام کو تلخ حقائق فراموش کروانے کی کوشش کی گئی۔

آدھی تقریر ضیاالحق اور آدھی پرویز مشرف کی تقاریر لکھنے والوں سے لکھوائی

عمران کے خطاب میں ضیاالحق کی مانند مذہب اور مشرف کی مانند بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے احتساب کی باتیں سن کرمحسوس ہوا کہ عمران خان کو تقریر لکھ کر دینے والوں نے آدھی تقریر ضیاالحق اور آدھی پرویز مشرف کی تقاریر لکھنے والوں سے لکھوائی۔ نادیدہ قوتوں نے شاید انتہائی محنت اور جانفشانی سے ضیاالحق اور پرویز مشرف کے خمیر کو گوندھ کر عمران خان کو منتخب کیا ہے۔ محض رومانوی تقاریر سے متاثر ہو کر جذبات کی رو میں بہہ جانے والوں سے عرض ہے کہ ایسا نہ پہلے کبھی ممکن ہوا پے اور نہ ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی شخص معاشرے کے تمام مسائل ایک رات۔ ایک مہینے یا چند سالوں میں حل کر دے۔

سماجی اور سیاسی ڈھانچہ مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے سے تشکیل نہیں پاتا

مسائل کا حل ایک ارتقائی عمل ہے اور چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی وقت کی بھٹی سے نسلوں کو گزر کر ترقی کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ محض نعروں یا تقاریر کے سہارے اگر تبدیلی آتی تو وطن عزیز میں آج دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ رومان پروری اور آئیڈیلزم اس وقت تک تعمیری ہوتے ہیں جب تک کہ وہ ہالوسینیشن میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسی صورت ترقی کر سکتا ہے جب اس میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے لیکن ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ بھی۔ سماجی اور سیاسی ڈھانچہ کسی بھی قسم کے شارٹ کٹ یا مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے سے نہ تو تشکیل پاتا ہے اور نہ ہی مضبوط ہوتا ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔