خوف کا فلسفہ: ضیاالحق سے عمران خان تک

خوف کا فلسفہ: ضیاالحق سے عمران خان تک
پرویز مشرف کو عدالت کی جانب سے سزا سنائی گئی تو پاکستان کے کئی شہروں میں مظاہرے کرائے گئے۔ سزا کو غیر شرعی اور غیر اسلامی بھی قرار دلوایا گیا مگر بات بن نہیں پائی کیوں کہ زمانہ بہت کچھ سمجھ گیا ہے۔ انہی دنوں ایک اسلامی کام کرنے والے چھوٹے سے دفتر میں جانا ہوا۔ میزبان نے پرویز مشرف کی سزا پر اظہار افسوس شروع کر دیا۔ راقم نے جذبہ جمہوریت سے لبریز لہجے میں سو دلیلیں دے ماری کہ سزا جائز ہے اور پرویز مشرف کی سزا واجب ہے۔

میزبان مذکور دلیل کو تسلیم کرنے کی بجائے فوری پینترا بدلتے ہوئے وار کرتے ہیں کہ اللہ کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو نہ ماننے والے پرویز مشرف کی سزا کے حق  میں راگ الاپ رہے ہیں۔ یکا یک کمرے کی فضا میں خوف کی لہر ابھری اور سب سہم گئے اور راقم کی زبان بھی گنگ ہو کر رہ گئی کہ مبادا کچھ اور آفت آسکتی ہے۔ سلام کر کے وہاں سے رفو چکر ہونے میں اپنی عافیت سمجھی۔

مذہب کا خوف بڑا کارگر ہتھیار ہے جس کا برملا استعمال آمر ضیاالحق کے دور میں کیا گیا۔ موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ اس وقت کی مقبول ترین کتاب تھی۔ ضیاالحق کے 11 سال پاکستان کے عوام نے خوف زدہ ہو کر گزارے۔

بعدازاں یہ چلن عام ہوتا گیا۔ یہ اختیار مذہبی گروہوں اور رسہ گیروں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خود فیصلے کرنے لگے۔ بلاسفیمی کے الزامات کئی گھرانے اجڑ چکے ہیں اور ہزاروں افراد نے مقدمات اور مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو نوعمر لڑکوں کی خود لگائی گئی عدالت میں اپنی صفائی دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ طالبعلم نے اپنے استاد کو قتل کر دیا۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں۔ کسی ایک ایسے سانحہ پر وزیراعظم سمیت کوئی وزیر اور چھوٹے سے چھوٹا اہلکار بھی متاثرین کی دلجوئی کے لئے کبھی نہیں گیا۔

ان معاملات میں ریاست اور حکومت مکمل لاتعلق رہتی ہے۔ معمول کی کارروائی کی جاتی ہے۔ مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا جاتا ہے۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں کے متعلق ریاستی رویہ نرم ہوتا ہے۔ فیض آباد دھرنے کی مثال سامنے ہے۔ جب تحریک لبیک کے لوگوں کو گھروں میں واپسی کے لئے کرایہ تقسیم کیا گیا تھا۔ بعض مواقع پر مظاہرے کرنے کے لئے بھی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

حکمرانوں کے لئے یہ لوگ آکسیجن کا کام کرتے ہیں اور بوقت ضرورت کام آتے ہیں۔ حکمران جب عوام کے مسائل سے صرف نظر کرتے ہیں اور عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں ایسے ایشوز کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام اور میڈیا کی توجہ اصل ایشو سے ہٹا سکیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سرمد کھوسٹ کی فلم زندگی تماشا سنٹرل سنسر بورڈ نے پاس کر دی تھی مگر پھر نمائش روک دی گئی کہ تحریک لبیک نہیں چاہتی ہے کہ فلم کی نمائش ہو۔ اب فلم کی نمائش کی اجازت دینا اسلامی نظریاتی کونسل پر ہے کہ کونسل کیا فیصلہ دیتی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں میں ایسے لگتا ہے کہ ضیاالحق کی روح عود آئی ہے۔ جو ہر بات میں خوف کے عنصر کو شامل کر کے عوام کی توجہ مسائل و بحران سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

باخبر حلقے جانتے ہیں کہ خوف کے ماحول میں ملک کی ترقی کیا ہوتی ہے اور ضیاالحق کی خرافات نے ملک کو جن اندھیروں کی نذر کیا وہ اندھیرے آج تک مسلط ہیں۔ عمران خان حکومت نے بھی ضیاالحق کا راستہ اپنا لیا ہے۔ جس کی منزل روشنی نہیں ہے بلکہ روشن آوازوں کو دبانے اور ختم کرنے کی کوشش ہے۔ آوازیں دبانے کا عمل واپسی کا سفر ہے، جس کے سرخیل آمر ضیاالحق تھے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔