14 اگست کا دن ہم نے باجے بجانے کے لئے مختص کر رکھا ہے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں باجے لے کر بچے ہوں یا بالغ شہری، بے تکان پاں پاں کرتے چلے جاتے ہیں اور بیچارے پولیس والے بھی اس صورتحال سے تنگ آ جاتے ہیں۔ لیکن یہ ملک ایک بہت عظیم مقصد کے لئے بنایا گیا تھا۔ وہ مقصد کیا تھا؟ وہ مقصد تھا ایک قوم جو خود کو عددی اقلیت ہونے کے باعث اکثریت کے جبر کے سامنے خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی، اسے تحفظ فراہم کرنا۔
لیکن اس سے بھی زیادہ اہم ایک ایسے ملک کا قیام تھا جس میں انسانوں کی برابری اور معاشی مساوات کا عملی مظاہرہ کیا جائے جو پاکستان کے بانی قائدین کے نزدیک متحدہ ہندوستان میں ممکن نہ تھا۔ پانچ بڑے مسائل جن کا تدارک پاکستان کے تصور میں پنہاں تھا، کچھ یوں تھے:
مذہبی تفرقے کا سدِ باب
مغلیہ سلطنت کے زوال سے بیسویں صدی کے اوائل تک مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی حالت انتہائی پست تھی اور ہندو اکثریت بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ اس عدم توازن کی بنا پر مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق ملنا قریباً ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ اگر آج کے ہندوستان کو دیکھا جائے تو پاکستان کے بانی قائدین غلط نہ تھے۔
طاقت کے ارتکاز کا تدارک
کانگریس اور اس کے عمائدین کے نزدیک ایک مضبوط مرکزی حکومت ہندوستان کی وحدت کے لئے ضروری تھی جیسے کہ برطانوی سرکار نے قائم کر رکھی تھی۔ قائد اعظم اور دیگر مسلم لیگی رہنما اس تصور کو بار بار چیلنج کرتے رہے اور ان کے نزدیک صوبوں کے پاس زیادہ اختیارات عوام کی خوشحالی کے لئے ضروری تھے۔ اسی لئے پاکستان کے قیام کے وقت ہندوستان کے دو مختلف خطے اسی امید پر اکٹھے ہوئے تھے کہ یہاں مکمل خودمختاری کے ذریعے مسلمان اکثریت اپنے حقوق کا تحفظ کر پائے گی۔
اقلیتوں کا تحفظ
1935 کے انڈیا ایکٹ کے بعد قائم ہونے والی کانگریسی حکومتوں نے اکثریتی غلبے کی جھلک دکھا دی تھی۔ اس امر کا سب سے اہم بیان جناح صاحب کی 11 اگست کی تقریر ہے جس میں انہوں نے کہا: "آپ آزاد ہیں – آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے – آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے – یا ریاستِ پاکستان میں کسی بھی مذہبی عبادتگاہ میں جانے کے لئے – آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، ریاستِ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"
نسلی اور علاقائی تعصبات کا خاتمہ
15 اگست کو کی جانے والی قائد اعظم محمد علی جناح کی اس تقریر میں اس وژن کا بھرپور احاطہ کیا گیا ہے۔
"پاکستان کے شہریوں، آج میں آپ کو انتہائی مسرت کے عالم میں مبارکباد پیش کر رہا ہوں۔۔۔15 اگست پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست کا جنم دن ہے۔۔۔یہ مسلم قوم کی ایک عظیم کامیابی ہے جس نے گذشتہ چند سالوں میں۔۔۔ایک علیحدہ وطن کی خاطر بے شمار قربانیاں دی ہیں۔۔۔اس عظیم موقع پر میرا دل ان بہادر مسلمانوں کے ساتھ ہے۔۔۔جنہوں نے اس مقصد کے لئے سب کچھ بشمول اپنی جانوں کے پاکستان کے لئے پیش کر دیا۔۔۔میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان تاقیامت ان کا شکرگزار رہے گا۔۔۔اور انہیں اپنی یادوں میں رکھے گا جو اب ہم میں نہیں۔۔۔ایک نئی ریاست کے قیام نے ایک بڑی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔۔۔یہ ان کے لئے موقع بھی ہے کہ وہ دنیا کو دکھا دیں۔۔۔کہ ایک قوم جس میں کئی قسم کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔۔۔وہ پرامن انداز میں رہ سکتی ہے اور اپنے تمام شہریوں کے لئے آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔۔۔خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں"
معاشی ترقی، روزگار اور عوامی فلاح
بحیثیت گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کو کی جانے والی تقریر کا وہ حصہ لوگ اکثر بھول جائے ہیں جس میں انہوں نے اس عزم کا بھرپور اعادہ کیا کہ پاکستان ہندوستان کے معاشی طور پر پسے ہوئے مسلمانوں کے لئے ترقی اور خوشحالی کے مواقع پیدا کرے گا۔ انہوں نے 11 اگست کو اقربا پروری اور کرپشن اور بلیک مارکیٹنگ کا ذکر کیا۔ لیکن عوامی بہبود معاشی ترقی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اسی وجہ سے نوزائیدہ ریاست کی یہ اولین ترجیح تھی کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقہ جات جو معاشی طور پر قریباً سبھی پسماندہ تھے، وہاں معاشی ترقی کو فروغ دے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے امریکی امداد لینے کا عندیہ اپنے انٹرویوز میں دیا تھا۔ بعد ازاں وہ امداد کہاں گیا، یہ ایک الگ بحث ہے۔
14 اگست 2021 کو ہمیں اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ کیا تصورِ پاکستان کے کلیدی اجزا آنے والی حکومتوں اور طاقتور اداروں، خصوصاً بیوروکریسی، نے پورے کیے؟ کیا ایک کثیر الثقافتی پاکستان میں مختلف گروہ اور قومیتیں برابر کے حقوق رکھتی ہیں؟ کیا پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں جو 20 فیصد سے سکڑ کر پانچ فیصد رہ گئی ہیں، خود کو محفوظ سمجھتی ہیں؟
کیا ہر سال لاکھوں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں؟ اور پچھلی دہائیوں میں ہونے والی معاشی ترقی کے ثمرات سب علاقوں تک پہنچے ہیں؟ آخر میں، کیا پاکستان اندرونی طور پر مستحکم ہے، اور اس جدید مسلم ریاست کا مظہر ہے جس کے خدوخال سر سید احمد خان، محمد علی جناح، لیاقت علی خان، مولوی فضل الحق، حسین شہید سہروردی، فاطمہ جناح اور شیخ مجیب الرحمٰن نے وضع کیے تھے؟
یومِ آزادی منانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم ان سوالات پر غور کریں، ان کے ایماندارانہ جوابات کھوجیں اور اگر اس نتیجے پر پہنچیں کہ ہم ان کے حصول میں کامیاب نہیں ہوئے تو پھر ایک نئے مستقبل کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔
؎ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی