بھٹو تو نہ مرا لیکن پاکستان ضیاالحق کی شدت پسندی کی لگائی آگ میں آج بھی جھلس رہا ہے

بھٹو تو نہ مرا لیکن پاکستان ضیاالحق کی شدت پسندی کی لگائی آگ میں آج بھی جھلس رہا ہے
4 اپریل کو ملکی سیاست کا ایک سیاہ ترین دن قرار دیا جاتا ہے۔ اس دن پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ جس طریقے سے ذوالفقار بھٹو پر غیر منصفانہ مقدمہ چلایا گیا اور بنا کسی ٹھوس ثبوت کے انہیں سزائے موت سنائی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھٹو کی موت کا ذمہ دار محض ضیاالحق یا پاکستانی دفاعی اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی سازش تھی۔ اور امریکہ کا آشیرواد ضیاالحق کے ساتھ تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بہت سے سیاسی فیصلے ان کے زوال کا باعث بنے لیکن بھٹو نے انہیں کافی حد تک درست کر لیا تھا۔ اور بھٹو کبھی بھی ایک غیر مقبول لیڈر نہیں تھا۔ ضیاالحق کے ملک میں مارشل لا لگانے کے بعد اور جیل سے رہائی کے بعد بھٹو نے جب پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تو عوام کا سمندر بھٹو کے ساتھ اس کی پشت پر نکل آیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=lxqqr_SKLV0

امریکہ کو ذوالفقار علی بھٹو سے ڈر تھا کیونکہ بھٹو اپنے سوشلسٹ ایجنڈے کی وجہ سے روس کے انتہائی قریب تھا

بھٹو کے خلاف چلنے والی پی این اے کی تحریک پر بہت سے سوالیہ نشانات کھڑے ہوتے ہیں۔ جس منظم انداز میں اے پی این اے کے مظاہرے بھٹو کے دور حکومت سے شروع ہو کر عام انتخابات تک جاری رہے اور ان پر جو اخراجات آئے وہ سیدھا سیدھا سی آئی اے کی منظم سازش کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ امریکہ کو ذوالفقار علی بھٹو سے ڈر تھا کیونکہ بھٹو اپنے سوشلسٹ ایجنڈے کی وجہ سے روس کے انتہائی قریب تھا۔ اس دور میں امریکہ اور روس کے درمیان کولڈ وار جاری تھی اور بھٹو واضح طور پر روس کی جانب خارجہ پالیسی کا جھکاؤ چاہتا تھا۔ اگر بھٹو کے خلاف ضیاالحق کی فوجی بغاوت اور اس کو تختہ دار تک پہنچانے میں امریکی آشیرواد شامل نہ ہوتا تو ضیاالحق بھٹو کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا تھا۔



بھٹو، نواز شریف سے کئی گنا بڑا لیڈر تھا، اس کے قتل پر اتنی خاموشی کیوں؟

امریکی مداخلت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ بھٹو کی پھانسی پر ایک بھی مسلمان ملک نے احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی ضیاالحق پر کوئی خاص دباؤ ڈالا۔ یاد رہے کہ 1999 میں جب نواز شریف کا تختہ الٹا گیا تھا اور نواز شریف کو بھی مشرف پھانسی لگانا چاہتا تھا، اس وقت سعودی عرب سے لے کر لبنان اور متحدہ عرب امارات نے مشرف پر انتہائی دباؤ ڈالا کہ نواز شریف کو جلا وطن کر کے ان کی میزبانی میں سونپ دیا جائے۔ سعودی عرب نے تو تمام قسم کی مالی معاونت اور تجارتی تعلقات بھی منقطع کرنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی نواز شریف کی رہائی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نواز شریف سے سیاسی قد کاٹھ میں کئی گنا بڑا اور پائے کا سیاسی و عالمی لیڈر تھا۔ اس لئے اس کی سـزا پر مسلم ممالک کی خاموشی اور امریکہ کی خاموش ہاں ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

قذافی واحد مسلم رہنما تھا جس نے بھٹو کو بچانے کی کوشش کی

عالمی رہنماؤں میں سے صرف معمر قذافی ایک واحد شخصیت تھا جس نے بھٹو کی رہائی کیلئے آخری دم تک کوششیں کیں۔ قذافی نے اپنے وزیر اعظم کو ایک خصوصی طیارے کے ساتھ پاکستان بھیجا اور ضیاالحق سے بھٹو کو لیبیا جلا وطن کرنے کیلئے مسلسل دباؤ ڈالتا رہا۔ قذافی نے بھٹو کی رہائی اور جلا وطنی کے بدلے ضیاالحق کو مالی امداد کی پیشکش بھی دی۔ قذافی کا خصوصی طیارہ ایک ہفتہ تک پاکستان کے ائر پورٹ پر بھٹو کو لے جانے کیلئے کھڑا رہا۔ لیکن ضیاالحق نے امریکی ایما پر قذافی کی درخواست کو بھی رد کر دیا۔ بھٹو کی پھانسی کے دن قذافی نے تمام مسلم ممالک پر نہ صرف شدید تنقید کی تھی بلکہ ان کی پراسرار خاموشی پر حیرت کا اظہار بھی کیا تھا۔



ضیاالحق نے پاکستان کو امریکی ایجنڈے کے تابع آگ و خون کے ایسے دریا میں جھونکا جس سے آج تک پاکستان نکل نہیں پایا

ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے والا ضیاالحق صرف بھٹو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو تختہ دار پر چڑھانے کا مجرم ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد ضیاالحق نے پاکستان کو امریکی ایجنڈے کے تابع آگ و خون کے ایسے دریا میں جھونکا جس سے آج تک پاکستان نکل نہیں پایا۔ نفرت، شدت پسندی، تعصب کے بڑھنے اور جمہوریت کے آج تک لنگڑے لولے ہونے میں ضیاالحق کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

بھٹو نے پاکستان کو واپس اس کے پیروں پر کھڑا کیا

دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو سقوط ڈھاکہ کے بعد دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ 90 ہزار فوجی جو کہ بھارت کی قید میں تھے انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے ہی چھڑوایا۔ 1973 کے آئین کی متفقہ منظوری ہو یا ایک جاندار اور توانا خارجہ پالیسی بھٹو کی قابلیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے۔ ہینری کسنجر جو کہ امریکی شعبہ خارجہ کے امور کا سابق سربراہ رہا اور جسے خارجہ پالیسی کی دنیا میں خدا مانا جاتا ہے خود ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت اور خارجہ پالیسی میں مہارت کا بہت بڑا پرستار تھا۔



بھٹو کوئی دیوتا نہیں تھا، مگر اس کا قتل ملکی عدلیہ کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے

ایسا نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کوئی دیوتا تھا۔ ہر انسان یا رہنما کی طرح اس نے بھی چند اچھے فیصلے کیے اور چند برے فیصلے۔ لیکن بھٹو پاکستان کی آج تک کی سیاسی تاریخ میں جناح کے بعد آنے والا سب سے قابل ترین اور ذہین رہنما تھا۔ بھٹو نے اسلامی ممالک کا مشترکہ بلاک بنانے سے لے کر متحدہ عرب امارات کو جدید طرین ریاست بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ جس وقت پورے پاکستان کا مورال مشرقی پاکستان جدا ہونے کے بعد ڈاؤن تھا ذوالفقار بھٹو نے دوبارہ اپنے جوش سے پاکستان کو سر اٹھانے کے قابل بنایا۔ جس بھونڈے انداز میں بھٹو پر قصوری کے قتل کا الزام لگا کر اسے تختہ دار پر چڑھایا گیا وہ خود ملکی عدلیہ کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔

گڑھی خدا بخش کا یہ قبرستان اپنے سینے میں بھٹو کے سارے خاندان کی لاشیں سمیٹے ہوئے کرب اور دکھ کی ایک داستان پیش کرتا ہے

بھٹو تو تختہ دار پر چڑھ کر ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا اور آج بھی اس کے نام پر لوگ ووٹ دیتے ہیں۔ بھٹو کی بیٹی دو بار پاکستان کی منتخب وزیر اعظم رہی اور اپنے باپ کی طرح سازش کا شکار ہو کر مرنے کے بعد بھی پیپلز پارٹی کو تیسری بار اقتدار تک رسائی دے گئی۔ بھٹو کی برسی پر گڑھی خدا بخش میں یقیناً اس کے چاہنے والے جمع ہو کر اس کی یاد منائیں گے اور زندہ ہے بھٹو زندہ کے نعرے جمہوریت کے دشمنوں کے سینے پر مونگ دلتے نظر آئیں گے۔ لیکن گڑھی خدا بخش کا یہ قبرستان اپنے سینے میں بھٹو کے سارے خاندان کی لاشیں سمیٹے ہوئے کرب اور دکھ کی ایک داستان پیش کرتا ہے۔

یہ جنگ نظریے کی ہے اور نظریہ سولی چڑھانے یا گولی مار دینے سے کبھی ختم نہیں ہوتا



بھٹو کی بیٹی اور اس کے دونوں بیٹے طبعی موت نہیں مرے بلکہ قتل کیے گئے۔ اس کی واحد بیٹی آج بھی محض اس لئے زندہ ہے کہ اس نے سیاست سے ناطہ نہیں رکھا۔ محض اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جھوٹے نعرے لگانے اور حقیقت میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے میں یہ فرق ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف رہنما اپنے خاندان سمیت منوں مٹی تلے دفن ہے، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے بنا کسی تکلیف اور قربانی کے عہدوں اور مراعات سے نسل در نسل فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ یہ جنگ نظریے کی ہے اور نظریہ سولی چڑھانے یا گولی مار دینے سے کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ لڑائی دنیا کی ابتدا سے جاری ہے اور اختتام تک جاری رہے گی۔ بھٹو اس سوچ کا نام ہے جو کبھی سقراط کبھی منصور حلاج کبھی مارٹن لوتھر کنگ اور کبھی نیلسن منڈیلا اور کبھی خود بھٹو کی صورت کسی نہ کسی روپ میں زندہ رہتی ہے اور دنیا میں جبر و استحصال کے خلاف برسر پیکار رہتی ہے۔

پیپلز پارٹی کو سوچنا ہوگا کہ وہ بھٹو کی جماعت ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی

دوسری جانب ضیاالحق جیسی سوچ ہے جو طالبان، القاعدہ، داعش اور امریکہ کی پٹھو بننے کی سوچ ہے۔ بھٹو پھانسی چڑھا اور جیت گیا۔ کیونکہ پچھلے 37 برس سے اس کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت آج بھی اپنا تشخص اور شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی جماعتوں میں سے اکثر اب محض کاغذوں پر ہی باقی رہ گئی ہیں۔ بھٹو کی برسی پر اس کی جماعت پیپلز پارٹی کو اس بات پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جسے اسٹیبلشمنٹ نے نہیں بلکہ بھٹو نے اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کی قربانی سے زندہ رکھا ہوا ہے تو پھر اس جماعت کو عوام کی خدمت کرنے کے بجائے عوام کو لوٹنے پر کس نے مائل کر دیا؟ ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت سے اسٹیبلشمنٹ کی حامی جماعت تک کا سفر کن کالی بھیڑوں نے طے کروایا۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔