اقتدار کی ہوس، ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شکست

مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہندوستان کی تقسیم کے بعد برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ اور جیسے چرچل کے الفاظ میں جنگ اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اسی طرح یہ تقسیم بھی ایک ایسا معاملہ ہے جسے محض جرنیلوں اور فوج کی غلط پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دینا زیادہ سے زیادہ آدھا سچ کہلا سکتا ہے۔ 1970 کے انتخابات میں 300 میں سے 160 نشستیں جیتنے والے شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار منتقل نہ کرنا فوجی حکومت کا فیصلہ تھا، لیکن یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ مغربی پاکستان کے سیاستدان بھی کوئی دودھ کے دھلے نہ تھے۔ اور ان سیاستدانوں میں سب سے اہم کردار ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔

ان انتخابات میں جہاں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی جماعت تقریباً سو فیصد اکثریت حاصل کر کے آئی تھی، وہیں مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ہاتھ تھی جس نے 81 نشستیں جیت رکھی تھیں اور پنجاب کی 180 میں سے 113 صوبائی نشستوں پر کامیاب ٹھہری تھی۔ تاہم، ذوالفقار علی بھٹو نے جمہوریت کا ساتھ دینے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہونے کو اپنا مفاد جانا۔ یہاں تک کہ جب 7 دسمبر 1970 کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی کا اجلاس بالآخر فروری میں بلایا جانے لگا تو بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان کو اس اجلاس میں شرکت سے روک دیا، اور یہاں تک کہا کہ اگر کسی نے اس اجلاس میں شرکت کرنے کی کوشش کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔



کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے شیخ مجیب کے ساتھ لاڑکانہ میں ہونے والی ملاقات میں اس فیصلے پر اتفاق کر لیا تھا کہ اگر اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے تو شیخ مجیب وزیر اعظم بن جائیں گے اور بھٹو صاحب صدر بن جائیں گے۔ تاہم، اس دعوے میں کتنی سچائی ہے، اس کا فیصلہ تاریخی حقائق سے کیا جا سکتا ہے۔

دو حقائق ایسے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ مبنی بر حقیقت نہیں۔ پہلا تو یہ کہ شیخ مجیب الرحمان نے اپنی 7 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں تاریخی تقریر کے دوران واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یکم مارچ 1971 کو بلائے جانے والے اجلاس پر جنرل یحییٰ خان نے اتفاق کر رکھا تھا مگر پھر اچانک انہوں نے ایک دن بھٹو صاحب سے پانچ گھنٹے کی ایک ملاقات کی جس کے بعد یہ اجلاس 25 مارچ تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔

شیخ مجیب کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے، یہ کہنا مشکل ہے مگر اتنا تو طے ہے کہ شیخ مجیب کی لاڑکانہ میں اگر بھٹو صاحب سے کوئی بات ہوئی بھی تھی تو بھی وہ بھٹو صاحب پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھے۔

دوسرا ثبوت ذوالفقار علی بھٹو کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کی گئی تقریر ہے جس میں انہوں نے پولینڈ کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی قرارداد پھاڑی اور جسے آج بھی بڑے فخر سے بھٹو صاحب کا ایک کارنامہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے یہ قرارداد پھاڑ کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1949 میں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ لے جا کر وعدہ کیا تھا کہ وہ جنگ بندی کے فوراً بعد کشمیر میں ریفرنڈم کروا دیں گے۔ جنگ تو رک گئی مگر ریفرنڈم آج تک نہیں ہو سکا۔ اور بین الاقوامی سیاست کو realism کے ساتھ دیکھا جائے تو مودی حکومت کے 5 اگست کے اقدام کے بعد کشمیر کا فیصلہ بھارت کے حق میں ہو چکا ہے۔



بھٹو صاحب کے پاس بھی یہ آپشن موجود تھا کہ پولینڈ کی قرارداد، جس پر دنیا کے 140 ممالک کے نمائندوں کے دستخط موجود تھے، کے تحت جنگ بندی کو قبول کرتے اور پاکستان کو ٹوٹنے سے بچا لیتے۔ لیکن انہوں نے یہ قرارداد پھاڑ کر اپنا nationalism تو جھاڑ لیا لیکن آدھا ملک گنوا دیا۔

واضح رہے کہ بھٹو صاحب اس وقت اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ وہ یحییٰ خان حکومت کے خلاف نہیں، بلکہ اس حکومت کے نمائندے کے طور پر پاکستان کے دو لخت ہونے کے پروانے پر دستخط کر کے آئے تھے۔ ان کی تقریر میں سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کم اور افسانوی ہیرو ازم اور جعلی فلسفہ زیادہ نظر آتا ہے۔

کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ پولینڈ کی قرارداد کو مان لیا جاتا تو کم از کم پاکستانی قوم ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت سے بچ جاتی، لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ اس وقت تک یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ مشرقی پاکستان ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اس سے جان چھڑا لینے میں ہی ان کی عافیت ہے۔ لہٰذا بھٹو صاحب جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا سویلین چہرہ تھے، سلامتی کونسل میں قرارداد کا مسودہ پھاڑ کر واپس آئے اور محض پانچ دن بعد بچے کھچے پاکستان کے صدر بن گئے، اور تاریخ میں پہلی مرتبہ چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ایک سویلین شخص چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا۔



اسٹیبلشمنٹ کے سویلین چہرے اور پاکستان کے صدر کی حیثیت ہی سے انہوں نے 1972 میں ہندوستان کا دورہ کیا اور 2 جولائی 1972 کو شملہ معاہدے کے تحت پاکستان کے نوے ہزار قیدی بھارت سے واپس لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1974 میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا موقع آیا تو مسلم دنیا سے آنے والے دباؤ کے تحت ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیر اعظم پاکستان بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا اور اس کانفرنس میں شمولیت کے لئے شیخ مجیب الرحمان بھی پاکستان تشریف لائے۔

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں ہمارے لئے سب سے پہلا سبق یہی ہے کہ سیاسی قوتیں اقتدار کی لالچ میں جمہوری اصولوں کو قربان کرتی ہیں تو اس کا نقصان ملک کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔

لیکن اس سے بھی بڑا سبق یہ ہے کہ جمہور کی رائے کو قبول کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ ریاستیں عوام سے ہیں، اور ریاست کی قسمت کا فیصلہ بھی جمہور کے ہاتھ ہی میں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ملک ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ سانحہ بنگال سے ملنے والا سبق آج کے پاکستان میں بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ریاستوں کا انتظام ریاست کے باسیوں کے ہاتھ رہنا چاہیے اور اس اصول کو سبوتاژ کیا جائے تو ہونے والے نقصان کو درست کرنے میں نسلیں لگ جاتی ہیں۔ اور ہم تو اب تک 1971 سے ملنے والے اسباق پر بھی آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔