آدم خور معاشرہ

آدم خور معاشرہ
تحریر: (جاوید بلوچ) سوشل میڈیا پر ایک کم عمر بچے کی تصویریں اور ایک ویڈیو وائرل ہے، جسے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے اور تشدد کرکے جان سے مار دیا گیا، اس واقعہ نے مجھ پر ایسا اثر کیا ہے کہ کبھی دل خود پہ لعنت بھیجنے کو کررہا ہے تو کبھی دیکھ کر نا دیکھنے کی خود کو دھوکا دینے کی ناکام کوشش کرنے کا، بالآخر یہ چند سال پہلے کا لکھا بلاگ شیٸر کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس نسل کی عبرت ناک لاش کا پوسٹ مارٹم کر سکوں۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں دن بدن تفرقہ بڑھتا جارہا ہے، لوگ اپنے جیسے لوگوں سے الگ رہنا چاہتے ہیں ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے جہاں ہر شخص آگے نکلنا چاہتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے جو پیچھے رہ گیا وہ کم تر، کم درجہ اور تمام تر وقار و عزت سے گرا ہوا ہے، اگر کچھ لمحوں کیلئے سوچوں بھی تو عجیب و غریب سا لگنے لگتا ہے۔

کچھ دن پہلے کچھ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو ہورہی تھی تو بات نکلی انتخابات کی کہ پہلے یوں ہوتا تھا کہ اشرافیائی طبقہ ووٹ کیلئے صرف خاندان کے کسی ایک بڑے یا چالاک شخص سے ملتے تھے، اور تمام ووٹ لے کر سالوں غائب رہتے تھے، اگر ملتے بھی تو صرف اُسی سرکردہ سے جو ووٹ لے کر اسے جتواتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں رہا، اس خاندانی سرکردہ کو باقی خاندان کے لوگ نہیں مانتے کیونکہ اگر وہ اس وزیر یا نمائندے سے ملتا ہے تو صرف اپنے ذاتی کام نکلواتا ہے، خاندان صرف یرغمال ہوتا ہے۔

اب ہر شخص دوسرے سے نفرت کرنے لگا ہے اپنا کام خود کرنا چاہتا ہے دھوکے میں نہیں رہنا چاہتا، اس کے لیے چالاک طبقوں نے اب ووٹ کیلئے پیسے چلانے کا رواج عام کیا ہے جہاں چند پیسوں سے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں وہاں کے اسکول، ہسپتال ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہیں اور ان اسکولوں اور ہسپتالوں کے پیسے صرف خود پر خرچ کیے جاتے ہیں۔

اس سرکردہ اور فردی مفاد کا انجام یہ ہوا کہ معاشرے میں ہر شخص سرکردہ بننا چاہتا ہے ہر کوئی دوسرے سے صرف مفادات نکالنا چاہتا ہے، جتنا ہو سکے دوسرے کو لوٹنا چاہتا ہے ایک بھوک نے ہر شخص کے اندر جنم لیا ہے جو روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ایسی بھوک جو انقلاب فرانس اور روس کے وقت عوام میں تھی جس کو بادشاہت سے ایسی نفرت ہوئی کہ ان کو اہل و عیال سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا، ان کے جسموں کو نوچ کر چھبا ڈالا، ایک ایسی نفرت جیسے لیبیا کے لوگوں نے اپنے بادشاہ معمر قزافی کی لاش کو چوراہوں پہ گھسیٹا۔

آج ہمارے معاشرے کا بھی غریب اکثریتی طبقہ ایک ایسی بھوک کی طرف مائل ہورہا ہے، ان کے دلوں میں ان کے کونسلر سے لیکر ہر نمائندہ، کسی بڑے عہدے پر فائز سرکاری آفیسر وغیرہ سب کیلئے نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں اگر مجبوری میں سامنے جھک کر سلام کرے تو دل میں ہزار گالیاں دے گا۔ یہی وجہ ہے جہاں جسے جو بھی موقع ملے وہ دوسرے کو ستائے گا بلکہ تڑپائے گا اور اپنا کوئی نا کوئی بدلہ اس سے ضرور لے گا۔

اگر وہ ٹریکٹر، ٹرک یا رکشہ چلا رہا ہے تو بھرپور کوشش کرے گا کہ اس ائیرکنڈیشن کار والے کو راستہ نہ دے۔ اگر وہ کسی دفتر کا کلرک ہے تو اپنے افسرز کی کرپشن کو دیکھ کر اپنی حالت کو برا سمجھ کر اسے تبدیل کرنے کی ہر ناجائز کوشش کریگا اور اپنے سے نیچے لوگوں پہ جتنا کرسکے زیادتی و بے رحمی کریگا۔ ٹریفک پولیس اپنے صاحبوں کی ڈیوٹی نہ دینے کا بدلہ سڑک کنارے کھڑے ریڑی والے سے لیتا ہے، جتنی گالیاں دے سکتا ہے اسے دے گا، بلکہ کھلے عام پیٹے گا بھی۔

غرض یہ کہ ہر طریقے سے معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے  کپڑوں سے لیکر، چھت، خوراک، رنگت، ڈیل ڈال ہر چیز چھیننا چاہتے ہیں۔ ہم اور ہمارا معاشرہ آدم خور بنتے جارہے ہیں۔ ہر پارٹی کے جلسے میں جاکر یہ محسوس کراتے ہیں کہ لوگ سمجھیں کہ فلاں شخص فلاں پارٹی کا ہے مگر حقیقت میں صرف نفرتیں جنم لے رہی ہیں اور نوچ کر کھانے والی قربتیں بڑھ رہی ہیں۔

اب کب یہ بھوک، یہ گھٹن باہر نکلے گی، پتہ نہیں مگر اس کے آثار واضح اور شدید تر ہوتے جارہے ہیں، یہ مذہبی جنونیت کی صورت یا ذاتی برتری کی صورت ہر طرح سے نمایاں ہے۔ یہ ایک اشتعال انگیز اور خطرناک چہرہ ہے، ایک آدم خور چہرہ۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔