پاکستانی نژاد امریکن سائنسدان نرجس موالوَلا: آئنسٹائن کی تھیوری ثابت کرنے سے لے کر ایم آئی ٹی کی شعبہ سائنس کی سربراہی تک

پاکستانی نژاد امریکن سائنسدان نرجس موالوَلا: آئنسٹائن کی تھیوری ثابت کرنے سے لے کر ایم آئی ٹی کی شعبہ سائنس کی سربراہی تک
نرجس موالوَلا ایک پاکستانی امریکن astrophysicist یعنی ماہرِ ھگول طبعیات ہیں جن کو حال ہی میں دنیا کی بہترین یونیورسٹی Massachusetts Institute of Technology میں شعبہ سائنس کا سربراہ بنایا گیا ہے۔

نرجس کی عمر 51 سال ہے۔ وہ 1968 میں لاہور میں پیدا ہوئیں اور ان کا بچپن کراچی میں گزرا۔ کراچی کے Convent of Jesus Mary سے او لیول اور پھر اے لیول کرنے کے بعد وہ 1986 میں امریکہ چلی گئیں جہاں انہوں نے Wellesley College میں داخلہ لے لیا اور 1990 میں Astronomy میں گریجویشن کیا۔ گریجویٹ ہونے سے قبل انہوں نے اپنے فزکس کے پروفیسر رابرٹ برگ کے ساتھ مل کر Physical Review B: Condensed Matter پر ایک پیپر لکھا اور پھر 1997 میں MIT ہی سے PhD کی ڈگری حاصل کی۔

نرجس کے والدین پارسی تھے اور وہ دو بہن بھائیوں میں سے چھوٹی والی بہن تھیں۔ ان کا رجحان شروع ہی سے ریاضی کی طرف تھا اور ان کے والدین نے بھی ان کا شوق دیکھ کر ان کو روزِ اول سے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کیا۔

موالولا پارسی مذہب میں پلی بڑھی ہیں۔ ان کے خاندان کے بہت سے لوگ ابھی بھی کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ نرجس ایک lesbian ہیں اور ان کی شریکِ حیات کے ساتھ ان کے دو بچے ہیں۔ اس حوالے سے اکثر ان کے بارے میں لوگوں کو عجیب و غریب تبصرے کرتے بھی دیکھا گیا ہے لیکن حنا نے ڈان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ان کے خاندان میں اس طرح کی کوئی سختیاں نہیں اور وہ gender roles کے بارے میں کسی مخصوص سوچ کے حامل نہیں۔ برصغیر سے سائنس میں دلچسپی رکھنے والی نوجوان خواتین میں نرجس موالولا کو ایک icon کی حیثیت حاصل ہے۔

فزکس کے شعبے میں ان کی خدمات کا ذکر کیا جائے تو نرجس نے گریجویشن میں اپنے ڈاکٹرل پروجیکٹ کے طور پر prototype laser interferometer for detecting gravitational waves بنایا۔ گریجویٹ سکول کے بعد وہ California Institute of Technology سے cosmic microwave کے شعبے میں PhD کرنے پہنچیں اور بعد ازاں LIGO یعنی Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory منصوبے پر کام کرنے لگیں۔

2002 میں انہوں نے MIT جوائن کر لی اور 2017 میں انہیں نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے لئے چن لیا گیا۔ موالولا سائنسدانوں کی اس ٹیم کا حصہ تھیں جس نے spacetime fabric میں پہلی مرتبہ لہروں کو دیکھا، جنہیں gravitational waves بھی کہا جاتا ہے۔ وہ 1991 سے gravitational waves پر کام کر رہی تھیں۔ اس ٹیم کی دریافت نے 1915 میں البرٹ آئنسٹائن کی جانب سے پیش کی گئی general theory of relativity کو ثابت کیا۔ اسی دریافت نے نرجس موالولا کو راتوں رات پاکستان میں ایک سلیبرٹی بنا دیا۔ ڈان کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں لوگوں کے میرے کام میں اس قدر دلچسپی دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنا کا مکمل حق ہونا چاہیے، خواہ وہ کوئی عورت ہو، مذہبی اقلیت سے تعلق رکھتی ہو یا ہم جنس پرست، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس موقع پر پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے نرجس کو پاکستانی سائنسدانوں اور ایسے نوجوانوں کے لئے مشعلِ راہ قرار دیا تھا جو سائنس کے شعبے میں اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نرجس کی کامیابی اور سائنس کے شعبے میں انتہائی اہم کامیابی پر پوری قوم ان پر فخر کرتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نرجس موالولہ کو ایک کامیاب سائنسدان بنانے میں دراصل امریکی یونیورسٹیز، وہاں کے نظامِ تعلیم اور بہترین اساتذہ نے ہی اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کا نظامِ تعلیم گذشتہ کئی دہائیوں سے کوئی قابلِ ذکر سائنسدان پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ موجودہ حکومت سے امید تھی کہ وہ تعلیم کے شعبے میں کچھ ایسی اصلاحات لائے گی جو کہ صورتحال کو بہتر کرے گی۔ تحریکِ انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل بھی تعلیمی کانفرنسز کا انعقاد کیا اور منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک بھر میں تعلیمی نظام میں طبقاتی تقسیم کو ختم کرے گی۔ لیکن دو سال کی شبانہ روز محنت کے بعد جو مسودہ یکساں قومی نصاب کی صورت میں سامنے آیا ہے، اس میں محض مدارس کا نصاب سرکاری سکولوں میں بھی متعارف کروانے کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ نرجس نوجوان طلبہ خصوصاً خواتین کے لئے ایک inspiration کا درجہ رکھتی ہیں، لیکن کیا ہمارا نظامِ تعلیم ان سے متاثر ہو کر سائنس کے شعبے میں آنے والے نوجوانوں کو ان کے بعد آنے والوں کے لئے ایک ماڈل بنا سکے گا؟ کاش کہ اس کا جواب اثبات میں ہوتا۔