چند یوم قبل امریکہ کی معروف اور سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا بھر میں سب سے بڑی یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے ڈین کے طور پر پہلی بار کسی خاتون اور امریکی نژاد پاکستانی سائنسدان کو چنا گیا۔ اس خاتون کا نام نرگس ماولوالا ہے جو کہ ایک ایسٹرو فزیسسٹ ہیں۔ ان کی تعیناتی کے اعلان کے موقع پر ایم آئی ٹی (میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) کا کہنا تھا کہ انہوں نے کشش ثقل کی لہروں کا سراغ لگانے کے بارے میں نئے خیالات متعارف کرانے کی وجہ سے شہرت پائی ہے۔
ماولوالا لاہور پاکستان میں 1968 میں ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور کراچی میں پرورش پائی۔ کراچی سے او لیول اور اے لیول کرنے کے بعد 1986 میں پڑھائی کی غرض سے امریکہ آ گئیں جہاں اس نے ویلسلے کالج میں داخلہ لیا اور 1990 میں فزکس اور آسٹرانومی میں بیچلرز کی ڈگری مکمل کی۔ 1997 میں ماولوالا نے ایم آئی ٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ وہاں اس کے ایڈوائزر رینر وائس تھے جو کشش ثقل کی لہروں کا سراغ لگانے کے لیے ایک آلے پر کام کر رہے تھے۔ ماولوالا نے اسے بنانے میں ان کی معاونت کی۔2017 میں رینر وائس کو اس کام پر فزکس کا نوبل انعام ملا۔
ڈاکٹر ماولوالا نے ایم آئی ٹی فزکس کے شعبہ کو 2002 میں جوائن کیا۔ 2017 میں ماولوالا کو نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر ماولوالا نے ایم آئی ٹی فزکس کے شعبہ کو 2002 میں جوائن کیا۔2017 میں ماولوالا کو نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔ ماولوالا کو بچپن سے ہی مکینکس کے کاموں میں دلچسپی تھی۔ اپنی بائی سائیکل کو اکثر خود ہی کھول کر ٹھیک کر رہی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ پاکستانی اخبار ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو کامیابی حاصل کرنے کے قابل ہونا چاہیے، چاہے وہ عورت ہو، اقلیتی مذہبی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو یا مخصوص جنسی رحجان کا حامل ہو۔
2016 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ڈاکٹر ماولوالا کی تعریف کی اور اسے پاکستانی سائنسدانوں کے لیے اور مستقبل کے سائنسدانوں کے لیے قیمتی اثاثہ قرار دیا۔ سابقہ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ پوری قوم کو ڈاکٹر ماولوالا کی قابل قدر خدمات پر فخر ہے۔ 2016 میں امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے ڈاکٹر ماولوالا کو پاکستانی حکومت کی طرف سے آسٹروفزکس میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر داد تحسین پیش کی اور پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔
ابھی ایم آئی ٹی کے ڈین کے طور پر تعیناتی پر ڈاکٹر ماولوالا کا کہنا تھا کہ ایم آئی ٹی دنیا میں جدید ترین سائنس کے لیے اہم جگہوں میں سے ہے اور یہ رتبہ برقرار رہے گا۔ ساتھ ساتھ ہمیں تنوع، نسلی اور سماجی مساوات کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
مجھے بحیثیت پاکستانی ہونے کے ڈاکٹر ماولوالا کی تعیناتی اور سائنس کی دنیا میں قابل تحسین کردار ادا کرنے پر فخر ہے۔ اس سے پہلے مجھے پاکستانی نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم کی سائنس کی دنیا میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دینے پر فخر ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ڈاکٹر عبدالسلام کو ہم میں سے بہتوں نے انسانیت اور پاکستانی ہونے کی ترازو میں تولنے کی بجائے ان کے مذہبی عقیدہ کو آڑ بنا کر ان کو پاکستان بدر ہونے ہر مجبور کیا اور دوسری قوموں نے ان سے زیادہ استفادہ حاصل کر لیا، کیا ڈاکٹر ماولوالا اگر کسی مقام پر پاکستان آ کر خدمات سرانجام دینا چاہیں تو کہیں ہم اس کے ساتھ بھی وہی سلوک دہرانے والے تو نہ ہوں گے؟ ہمیں اپنے قابل اور ذہین افراد کی قدر ان کے ذاتی نظریات اور مذہبی عقائد سے بالاتر ہو کر کرنی ہو گی ورنہ دوسری قومیں ان سے استفادہ حاصل کرتی رہیں گی اور ہم بس منہ ہی تکتے رہیں گے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔