آخر ریکھا کو نرگس نے ’چڑیل‘ کیوں کہا تھا؟

آخر ریکھا کو نرگس نے ’چڑیل‘ کیوں کہا تھا؟
مثالی خوبصورتی اور دلکش حسن و جمال کی حامل ریکھا کو دیکھنے کے بعد لگتا ہے جیسے وقت اُن کے لیے تھم سا گیا ہے۔ جن میں آج تک وہی نزاکت اور چہرے پر وہی تازگی ہے جو کیرئیر کی شروعات میں تھی۔ عمر کی 66بہاریں دیکھنے کے باوجود ریکھا ایک ایسی سدا بہار شخصیت بن چکی ہیں جن کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو سب بے تاب رہتے ہیں۔ بھارت کی علاقائی زبان کی فلموں میں قسمت آزمانے کے بعد ریکھا نے جب1969میں ’انجانا سفر‘ کے ذریعے صرف15برس کی عمر میں ہندی زبان کی فلموں میں قدم رکھا تو اس تخلیق کی عکس بندی کے دوران ہی اُن کے ساتھ وہ واقعہ پیش آیا کہ انہوں نے اداکاری کو چھوڑنے کا اراد ہ کرلیا تھا لیکن گھر والوں کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اس چمکتی دمکتی دلدل میں دھنستی چلی گئیں۔

کہا جاتا ہے کہ ’انجانا سفر‘ کے ہیرو بسواجیت ان پر دل ہار بیٹھے تھے۔ رومانی اور بوس و کنار کے مناظر کو عکس بند کرتے ہوئے جان بوجھ کر غلطیاں کرتے تاکہ ریکھا کو چھونے کا اور موقع ملے۔ ایک پیار بھرے منظر کے لیے انہوں نے ریکھا پر اپنی گرفت اس قدر مضبوطی سے جمائی کہ ہدایتکار کو مداخلت کرنی پڑی۔ یہی نہیں رات میں مے نوشی کی حالت میں ریکھا کے کمرے میں پہنچ کر زور زبردستی کی بھی کوشش کی۔15برس کی ریکھا اس واقعے کے بعد سہم سی گئیں۔ جن کے اندر یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ مرد، صنف نازک کو صرف کھیلنے کی چیز ہی سمجھتے ہیں تو کیوں ناں مردوں کو و ہ خود کھلونا بنادیں۔

ریکھا کی 1970میں  نووین نچل کے ساتھ ’ساون بھادوں‘ سنیما گھروں کی زینت بنی تو  ابتدا میں ان میں کسی نے خاص نوٹس نہیں لیا  لیکن پھر آنے والے دنوں میں ریکھا نے اپنے لیے الگ ہی راہ کا انتخاب کیا۔ ریکھا کی خوش قسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ اُ س دور میں بھارتی فلموں میں پرانی اداکارائیں دھیرے دھیرے فلموں سے الگ ہورہی تھیں اور انڈسٹری میں نئی اداکارائیں جیسے ہیما مالنی، راکھی، رینا رائے اور زینت امان کو زیادہ مواقع مل رہے تھے۔ اسی لیے ریکھا پر بھی کئی فلموں کی برسات ہوئی۔

اس عرصے میں ریکھا کا نام کبھی جتندر، کبھی راجندر کمار، پریم چوپڑہ، نوین نچل اور یہاں تک ولن رنجیت کے ساتھ بھی مشہور ہوا اور پھر جب انہوں نے امیتابھ بچن کے ساتھ ’دو انجانے‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے تو یہ جوڑی اس قدر پسند کی گئی کہ ان کے عشق آج تک عام ہیں۔ امیتابھ کی محبت کے طور پر شناخت کی جانے والی ریکھا کا یہ عشق ایک دوراہے پر آکر ختم ہوا۔

ایک عام تاثر یہ بھی رہا کہ ریکھا کسی کی بھی محبت کو چرانے میں کمال کا ہنر رکھتی ہیں۔ اپنی دل پھینک اداؤں کے ذریعے زلفوں کا اسیر بناسکتی ہیں۔ ریکھا  کسی کی بھی شادی شدہ زندگی میں بھونچال لاسکتی ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ فلمی جرائداور تنقید نگاروں نے ریکھا کو گھر توڑنے والی اداکارہ قرار دیا۔ اسی کا اثر تھا کہ جب ریکھا، راجیش کھنہ کے ساتھ فلموں میں کام کررہی تھیں تو ڈمپل کپاڈیہ نے دو ٹوک لفظوں میں انہیں شوہر راجیش کھنہ سے دور رہنے کی دھمکی تک دے ڈالی تھی۔یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ ریکھا کی اپنی ازدواجی زندگی تلخیوں اور ناخوشگوار واقعات سے بھری رہی۔ ونود مہرہ سے ناکام شادی ہوئی، جس کا اعتراف وہ آج تک نہیں کرپائیں۔  پھر 90کی دہائی میں بزنس مین مکیش اگروال کی دلہن بننے کے بعد ان کی زندگی کو دیکھ کر لگا کہ اب اس میں ٹھہراؤ آگیا ہے لیکن پھر مکیش اگروال کی خودکشی نے ریکھا کو ایک بار پھر الزامات کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ مکیش اگروال کے خاندان نے  ریکھا کو ہی اس موت کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے انہیں ’دولت کی لالچی،  مفاد پرست اور خود غرض‘ کہہ کر مخاطب کیا۔

ان سب تنازعات  اور الزامات کے باوجود ریکھا سے آخر نرگس کیوں خفا ہوئی تھیں؟ کیوں اس قدر سخت لفظ سے انہیں مخاطب کیا؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے ایک بار پھر ماضی کی جانب لوٹنا پڑے گا۔ یہ 1974کا قصہ ہے۔ جب نرگس کے شوہر سنیل دت، ریکھا کے ساتھ فلم ’پران جائے پر وچن نہ جائے‘ کی عکس بندی میں حصہ لے رہے تھے۔ فلمی جرائد نے یہ چٹ پٹی خبریں شائع کرنا شروع کردیں کہ ریکھا نے سنیل دت پر ایسے ڈورے ڈالے ہیں کہ وہ ان کے عشق میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ نرگس کے کانوں تک یہ چرچے پہنچے تو ابتدا میں  انہوں نے نظر اندازکردیا ۔ اسی دوران 1976میں جب ’ناگن‘ کی عکس بندی کے دوران ایک بار پھر یہ فسانے عام ہوئے تو سمجھیں نرگس چراغ پا ہوگئیں، انہیں دال میں کالا محسوس ہونے لگا۔ وہ فلم نگری میں ایک طویل عرصہ گزار چکی تھیں، یہاں کے نشیب و فراز اور عشقیہ  کہانیوں کو بہت قریب سے دیکھ چکی تھیں۔ انہیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ جب دھواں اٹھتا ہے تو آگ تو کہیں نہ کہیں لگی ہوتی ہے۔ وہ اس بات سے بھی واقف تھیں کہ ریکھا اپنی اداؤں اور دل پھینک انداز  سے کسی بھی شخص کو دیوانہ بناسکتی ہیں۔

نرگس نے اس ساری صورتحال کوبھانپ کر فلمی جریدے کو ایک ایسا انٹرویو دیا، جس نے بالی وڈ میں ہلچل مچادی۔ نرگس کا کہنا تھا کہ ’ ریکھا مردوں کو یہ تاثر دیتی ہیں کہ انہیں آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ کسی  ’چڑیل‘ سے کم نہیں۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کہ میں ریکھا کو سمجھاؤں۔ میں ان کی پریشانی کو سمجھ لیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ریکھا جیسے کئی بچوں کے ساتھ کام کیا۔ جنہیں نفسیاتی الجھنیں اور پریشانیاں ہوتی ہیں۔ میری رائے میں ریکھا کو مضبوط آدمی کی ضرورت ہے۔‘

ریکھا جو اس وقت 22برس کی تھیں، ان تک بھی نرگس کے یہ الفاظ پہنچے لیکن  احتراماً انہوں نے اس سلسلے میں نرگس کے بارے میں کوئی منفی بیان نہ دیا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ریکھا نے بعد میں سنیل دت کے ساتھ دیگر کئی فلموں میں کام کیا لیکن نرگس کے ان خیالات پر بات کرنے کی نہ ریکھا کو ہمت ہوئی اور ناہی سنیل دت کو، جو ریکھا کے ساتھ پہلے جیسے  گھلنے ملنے کی کوشش نہیں کرتے۔

حسین اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ سنیل دت نے پہلی بار جس فلم میں ریکھا کے ساتھ کام کیا تھا،  وہ  1972میں نمائش پذیر ہونے والی ’زمین آسمان‘ تھی۔ جب1984میں  نرگس اور سنیل دت کے جواں سال بیٹے سنجے دت کو پہلی مرتبہ  ریکھا کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو اس فلم کا نام بھی  ’زمین آسمان‘  ہی تھا۔  جس کی عکس بندی کے دوران ہی یہ مشہور ہوگیا کہ ریکھا نے سنجے دت کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا لیا ہے، دونوں کی شامیں ایک ساتھ گزرتیں اور اکثرو بیشتر سنجے دت اور ریکھا ایک ساتھ ہی دیکھے جاتے۔  یہاں تک کہا جانے لگا کہ ریکھا اور سنجے دت نے چھپ چھپا کر شادی تک کرلی ہے  سنیل دت کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے سنجے دت کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُن  پر عشق کا بھوت سوار تھا۔ سنیل دت کے ذہن میں اپنی مرحوم بیوی نرگس کے الفاظ گونج رہے تھے۔ تب انہوں نے بیٹے کو مزید سمجھانے کے  بجائے خود ریکھا سے ملاقات کا فیصلہ کرتے ہوئے اُنہیں سنجے دت سے دور رہنے کی تنبیہ بھی کی۔ سنیل دت کے سخت لہجے اور سیاسی اثر و رسوخ کا ہی اثر تھا کہ ریکھا نے سنجے دت سے فاصلہ رکھنا شروع کردیا۔ اب کیا ریکھا نے سنجے دت کو اپنے پیار کی حسین وادیوں کی سیر کراکے نرگس کے ’چڑیل‘ کہنے کا انتقام ان کے ہی  بیٹے سے لیا تھا یا نہیں؟ اس بارے میں ریکھا ہی زیادہ بہتر بتاسکتی ہیں۔