امیتابھ بچن کی سال گرہ پر خصوصی تحریر
کیا یہ حقیقت ہے یا فسانہ کہ جیا بچن نے فلم ’رام بلرام‘ کی عکس بندی کے دوران رقابت کی آگ میں جلتے ہوئے ریکھا کو تھپڑ مارا تھا۔ یہ وہ افسانوی کہانی ہے جس کو نگار خانوں میں بڑے چٹ پٹے انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی تصدیق کرتا ہے تو کوئی لاعلمی کا اظہار کرنے میں پیچھے نہیں رہتا۔ اس حقیقت سے تو انکار نہیں کہ امیتابھ بچن ریکھا کی رومان پرور کہانی اور قصے اُسی طرح مشہور ہوئے جیسے کسی زمانے میں دلیپ کمار مدھو بالا یا پھر راج کپور نرگس کے عشقیاچرچے زبان زد عام ہوئے۔ ریکھا اور امیتابھ بچن کا کسی بھی فلم میں پہلی بار سامنا 1973میں آئی ’نمک حرام‘ میں ہوا تھا۔ گو کہ ریکھا‘ امیتابھ کی جوڑی دار تو نہیں بنی تھیں لیکن دونوں کے مناظر جہاں جہاں پردہ سیمیں پر آئے۔ سبھی کو اچھے لگے۔اُس وقت تک ریکھا اوسط درجے کی اداکارہ تھیں اور کسی اچھی فلم کی تلاش میں تھیں۔ امیتابھ بچن اینگری مین بننے کے مراحل ’زنجیر‘ سے پورے کرچکے تھے۔ یہ ریکھا کی خوش قسمتی ہی ہے کہ اگلے تین برس کے بعد وہ فلم ’دو انجانے‘ میں اُس سپر اسٹار کی ہیروئن بنیں جس کے نام کے آگے دیوار، شعلے‘ مجبور اور چپکے چپکے جیسی ہٹ فلمیں جڑی تھیں۔ ’دو انجانے‘ کے بعد یہ انجانے قریب سے قریب آتے گئے جبکہ فلم بینوں کو پہلی بار امیتابھ بچن کے مقابل ان کے قد و قامت والی ہیروئن بھا بھی گئی۔ اس تخلیق کے بعد پھر خون پسینہ‘ گنگا کی سوگندھ‘ مقدر کا سکندر‘ مسٹر نٹور لال اور سہاگ میں کام کرتے کرتے نجانے کب اور کیسے دونوں پیار کی وادی میں کھوتے ہی چلے گئے۔ پروڈیوسرز کے لیے ریکھا اور امیتابھ بچن کی جوڑی‘ باکس آفس پر دولت کی برسات ثابت ہوتی۔ فلمی جرائد دونوں کی محبت کی کہانیوں کو بیان کرتے اور کہا تو یہ بھی جاتا کہ امیتابھ بچن بیشترپروڈیوسرز پر زور دے کر ریکھا کو اپنی ہیروئن بنانے کا اصرار کرتے۔ یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ امیتابھ بچن کی سال گرہ سے ایک دن پہلے یعنی 10 اکتوبر کو ریکھا کا جنم دن ہوتا۔ مرچ مسالے والے جریدے اسی بھی خوب تڑکا لگا کر شائع کرتے۔
اس ساری ’لواسٹوری‘ کے درمیان شادی شدہ امیتابھ بچن کی شریک سفر جیا بچن کو فلمی جرائد اور اخبارات سے سُن گن تو ملتی لیکن وہ ہر مرحلے پر ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیا ر کرتیں۔گو کہ امیتابھ بچن کا نام پروین بوبی کے ساتھ بھی شہ سرخیوں میں آتا لیکن جیا بچن کو فکر ریکھا کے ساتھ کام کرنے پر زیادہ ہوتی۔ وہ شوہر کے فلمی معاملات میں مداخلت کی عادی نہیں تھیں۔ لیکن کسی حد تک خود کو غیر محفوظ بھی سمجھنے لگی تھیں۔ اسی دوران 1976میں جب اداکار اور ہدایتکار وجے آنند نے فلم ’رام بلرام‘ ریکھااور امیتابھ بچن کے ساتھ بنانے کا اعلان کیا تو جیسے جیا بچن کے اندر کا جوالا مکھی پھٹ پڑا۔ وجے آنند کے ساتھ ان کے خاندانی مراسم تھے۔ جبکہ وہ جیا بچن کی فلم ’کورا کاغذ‘ کے ہیرو بھی رہے تھے۔ اسی لیے جیا بچن نے اب ارادہ کرلیا کہ وہ اپنے کارڈز کا استعمال کریں گی۔
کہا جاتا ہے کہ جیا بچن نے وجے آنند سے اصرار کیا کہ وہ ریکھا کی جگہ کسی اور ہیروئن کا انتخاب کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وجے آنند کم و بیش راضی بھی ہوگئے تھے لیکن یہاں کہانی میں آیا ایک اور نیا ڈرامائی موڑ۔ جیا بچن کی ’ہلچل‘ سے ریکھا بے خبر نہیں تھیں۔
جنہوں نے ہدایتکار وجے آنند سے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ ہر صورت میں اس فلم میں کام کرنا چاہتی ہیں۔ وجے آنند نے مجبوری کا اظہار کیا تو ریکھا نے شطرنج کی بساط پر ایک نئی چال چلتے ہوئے فلم کے پروڈیوسرکوشالدیب سنگھ یعنی ٹی ٹو تک رسائی کی۔ یہ وہی ٹی ٹو تھے جنہوں نے امیتابھ بچن اور ریکھا کو پہلی بار بطور ہیرو اور ہیروئن ’دو انجانے‘ میں پیش کیا تھا۔ ریکھا نے ان کے سامنے یہ پیش کش رکھی کہ وہ ’رام بلرام‘ میں بلامعاوضہ کام کرنے کو تیار ہیں۔پروڈیوسر کو کیا چاہیے تھے کہ کامیاب ہیروئن ان کی فلم میں اداکاری دکھانے کے لیے مفت میں دستیاب ہے۔ اسی لیے انہوں نے ایک لمحے کی دیر بھی نہ کی اور حتمی طور پر یہ اعلان کردیا کہ ’رام بلرام‘ میں ریکھا کی جگہ کوئی اور نہیں کام کرے گا۔
یہ جیا بچن کی بہت بڑی شکست تھی۔ وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھانے لگیں۔ امیتابھ بچن اور ریکھا فلم کی عکس بندی میں مصروف ہوتے اور اِدھر جیا بچن یہ سوچ سوچ کر اپنا من جلا رہی ہوتیں کہ جو وہ چاہتی تھیں وہ نہ ہوا۔ ریکھا کو امیتابھ بچن سے دور رکھنے کی ان کی کوشش ناکام رہی اورکہا جاتا ہے کہ ایک دن ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ فلم کے سیٹ پر جب وہ اچانک پہنچیں تو امیتابھ اور ریکھا خوش گپیوں میں مگن تھے۔ یہ منظر جیا بچن کو اور طیش میں لے آیا۔ بیوی کے تیور دیکھ کر امیتابھ بچن تو خاموشی کے ساتھ اپنی وین کی طرف چلتے بنے۔یونٹ اسٹاف بھی جیا بچن کے جلالی انداز کو دیکھ کر سہم کر اِدھر اُدھر ہوگئے۔ اب محبوبہ اور بیوی آمنے سامنے تھیں۔ رقابت اور جلن کی آگ دونوں جانب لگی ہوئی تھی۔ اب یہاں چٹ پٹی خبریں بنانے والے رپورٹرز نے اپنا کام دکھایا۔ چٹخارے بھری یہ کہانیاں عام ہوئیں کہ جیا بچن نے ریکھا کو سب کے سامنے زور دار طمانچہ مارا۔ جبکہ سنجیدہ فلمی جرائد نے اس واقعے کو ایک عام سے قرار دیا۔جریدے ’فلم فئیر‘ نے یہی رپورٹ کیا کہ جیا بچن کی یہ معمول کی آمد تھی ۔ جو وہ اکثر امیتابھ بچن کے فلمی سیٹ پر اس سے پہلے بھی کرتی رہیں۔
1980میں جب ’رام بلرام‘ سنیما گھروں میں سجی تو اس سے جڑی ان کہانیوں نے بھی اسے تشہیر دلا دی جبکہ فلم سپر ڈوپر ہٹ بھی ہوئی۔ لیکن یہ کیسا اتفاق ہے کہ امیتابھ بچن اور ریکھا نے ’رام بلرام‘ کے بعد صرف ’سلسلہ‘ میں ہی کام کیا۔ جس میں جیا بچن نے وہی کردار ادا کیا جو وہ حقیقی زندگی میں کررہی تھیں۔ جو اس جانب اشارہ بھی کرتا ہے کہ وہ واقعی ریکھا کو اپنے لیے خطرہ محسوس کررہی تھیں اور ایک روایتی بیوی کی طرح کا ان کا رویہ رہا۔ کیونکہ جب انہیں ’سلسلہ‘ کی کہانی سنائی گئی تو انہوں نے اس تخلیق میں اداکاری دکھانے کے لیے جھٹ پٹ حامی بھرلی تھی۔مگر کیمروں کی آنکھیں کئی بار وہ مناظر بھی ریکارڈکرچکی ہیں جب ریکھا اور جیا بچن کا آمنا سامنا ہوا تو دونوں نے یا تو ایک دوسرے کو نظر انداز کیا یا پھر انتہائی بے رخی کے ساتھ بے اعتنائی کا مظاہرہ ۔ آنے والے برسوں میں ایک انٹرویو کے دوران صحافی نے ہمت اور جرات کرکے جب جیابچن سے اس واقعے کے متعلق سوال کیا تو ان کا جواب تھا ’کیا آپ سمجھتے ہیں ایسا ہوسکتا ہے اگرایسا ہوتا تو آج امیت میرے ساتھ نہ ہوتے۔