یکم جون 1987 کو زندگی سے منہ موڑنے والے ناول نگار، افسانہ نگار، صحافی، کالم نگار، ہدایتکار اور فلم ساز خواجہ احمد عباس کی خواہشات بڑی عجیب اور غریب تھیں۔ آرزو تو یہ بھی تھی کہ سر پر سیاہ گھنے بال اگ جائیں، کسی طرح پھر سے جوان ہوجائیں۔ ایسی فلم تخلیق کریں جس کی دھوم زمانے بھر میں ہو، کبھی دل میں یہ خواہش بھی مچلتی کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کر جائیں، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چاند کی سیر کی تمنائیں تتلیاں بن کر دل و دماغ میں اڑتی رہتیں۔ مگر پھر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہتے کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔
سات جون 1914 کو پانی پت میں آنکھ کھولنے والے خواجہ احمد عباس کی زندگی میں ان کا مؤثر اور کارآمد ہتھیار قلم ہی رہا۔ جس سے انہوں نے کبھی معاشرے اور مذہب کی سرحدوں پر حملہ کیا تو کبھی زبان اور نسل کی روایتی دیواروں کو ڈھانے کی جستجو کی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہتر مستقبل کے خاطر دہلی کا رخ کیا۔ اخبار میں ملازمت کی تو سائیکل پر دہلی کے گلی محلوں میں خبر کی کھوج میں نکل پڑتے اور انہی خبروں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے ہوئے کئی دلخراش اور حساس واقعات سے ایسے سامنا ہوا کہ انہیں افسانے کی صورت دینا شرو ع کر دی جو زبان زد عام ہوئے۔ شہرت اور تجربات کے لئے دہلی چھوڑ کر بمبئی آ پہنچے۔
خواجہ صاحب نے 1935 میں انگریزی اخبار ’بمبئی کرانیکل‘ میں شمولیت اختیار کی جہاں فلمی تبصروں پر ان کا کالم ’دی لاسٹ پیج‘ نے تو جیسے تہلکہ مچا دیا۔ یہ کالم اخبار کے سب سے آخری صفحے پر شائع ہوتا لیکن کیسی حیران کن بات ہے کہ قارئین سب سے پہلے یہی صفحہ پڑھتے۔ گو کہ 1947 میں اخبار ’بمبئی کرانیکل‘ بند ہو گیا لیکن بعد میں یہ کالم دو اور اخبارات کی زینت بنتا رہا۔ خواجہ صاحب کا کیا یہ کمال نہیں کہ ان کا یہ کالم، برصغیر کا سب سے طویل مدت تک شائع ہونے والا کالم تھا جس کا سلسلہ 1987 تک جاری رہا۔ کالم کے سلسلے میں ان کی محفلیں فلمی شخصیات کے ساتھ سجنے لگیں جو ان کے تنقیدی کالم سے خفا بھی رہتے۔
خواجہ احمد عباس کہتے تھے کہ کالم لکھتے ہوئے انہیں احساس ہوا کہ فلموں کی کہانیوں میں خاصا جھول ہوتا ہے۔ کمزور سکرپٹ اور ان کی بنیاد ہی غلط رخ کی طرف ہوتی ہے۔ اس کی نشاندہی وہ جب ہدایتکاروں کے سامنے کرتے تو ان کا پہلی خواہش ہوتی کہ خواجہ صاحب خود کیوں نہیں اس شعبے کی طرف آتے۔ خواجہ صاحب جانتے تھے کہ پروڈیوسر اور ہدایتکار رشوت کے طور پر کہانی لکھنے کی یہ پیش کش کر رہے ہیں۔ جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ خواجہ صاحب کے تند و تیز اور چبھتے ہوئے تبصروں سے نجات ملے، مایوسی تو اُس وقت ہوتی ایسے پروڈیوسرز کو جب خواجہ صاحب معذرت کر لیتے۔
’دی لاسٹ پیج‘ کو لے کر پروڈیوسرز کچھ زیادہ ہی حساس ہوتے جا رہے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے اخبار کا بائی کاٹ کر دیا۔ مطالبہ داغا کہ جب تک خواجہ احمد عباس کو نہیں ہٹایا جائے گا وہ اخبار کو اشتہارات نہیں دیں گے۔ ایسی صورتحال میں انہیں ’سنڈے ایڈیشن‘ کا انچارج بنا دیا گیا، جس کے بعد خواجہ احمد عباس کا نیا روپ دنیا پر عیاں ہوا۔
1941 میں بمبئی ٹاکیز کی فلم ’نیا سنسار‘ کے لئے انہوں نے پہلی بار سکرین پلے اور کہانی لکھی تو ہر جانب ان کی دھوم مچ گئی۔ خواجہ احمد عباس کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہدایتکار کے چیلنج دینے پر ہدایتکاری میں بھی آئے۔ جس نے ان کی کہانی میں تبدیلی کی اور جب انہوں نے اعتراض کیا تو اس کا جواب تھا باتیں کرنے سے بہتر ہے ہمت ہے تو خود ڈائریکشن دے کر دکھاؤ۔ اس مرحلے پرخواجہ صاحب نے اگلے ہی برس ’دھرتی کے لال‘ کی ڈائریکشن دے کر خود کے لئے ایک اور بلند مقام پا لیا۔ راج کپور نے خواجہ احمد عباس کی صلاحیتوں کو پرکھ لیا تھا، جبھی ان کے ساتھ ایک نیا سفر شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں آوارہ، شری 420، جاگتے رہو، انہونی، میرا نام جوکر، بوبی اور حنا جیسی شہرہ آفاق فلمیں بڑے پردے کی زینت بنیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ راج کپور کو ’شو مین‘ بنانے میں خواجہ احمد عباس کا کردار اہم رہا ہے۔
خواجہ احمد عباس ہی وہ جوہری ہیں جنہوں نے فلم نگری کو امیتابھ بچن جیسا انمول ہیرا دیا۔ لیکن یہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ 70 کے اوائل میں آنے والی ’سات ہندوستانی‘ کے لئے امیتابھ بچن کسی بھی صورت اولین انتخاب نہیں تھے۔ یہ کردار ٹینو آنند کو ادا کرنا تھا لیکن وہ ستیہ جیت رائے کی فلم کی خاطر ’سات ہندوستانی‘ سے الگ ہو گئے۔ خواجہ احمد عباس کو ان کی جگہ کسی اور اداکار کی تلاش تھی۔ ٹینو آنند نے ہی خواجہ صاحب کو امیتابھ بچن کی تصویریں دکھائیں، امیتابھ بچن اُس وقت ہر پروڈیوسر اور اداکار کو اپنا فوٹو سیشن فلموں میں قسمت آزمانے کے لئے تھماتے رہتے تھے۔ ٹینو آنند کے نہ ہونے کی بنا پر بحالت مجبوری امیتابھ بچن کو کلکتہ سے بلایا گیا۔ جو 1600 روپے ماہانہ کی نوکر ی چھوڑ کر بمبئی پہنچے۔ خواجہ احمد عباس نے امیتابھ بچن کو بغور دیکھا اور جو پہلی چیز ان کو متاثر کر گئی وہ امیتابھ بچن کا دراز قد ہونا تھا کیونکہ فلم کی کہانی کے اعتبار سے ایسے ہی لمبے شخص کی ضرورت تھی۔ 15 فروری 1969 وہ تاریخ تھی جب امیتابھ بچن کو ’سات ہندوستانی‘ کے کردار انور علی کے لئے سائن کیا گیا اور معاوضے کے طور پر 5000 روپے طے کیے گئے۔ امیتابھ بچن کو اندازہ تھا کہ فلم اگر ڈیڑھ دو سال میں مکمل ہوئی تو ان کی کلکتہ والی تنخواہ کے مقابلے میں یہ رقم انتہائی کم ہوگی لیکن اداکار بننے کے جنون کی خاطر انہوں نے یہ قربانی بھی دے دی۔
امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ خواجہ احمد عباس اجتماعیت پر یقین رکھتے تھے۔ فلم کا بجٹ زیادہ نہیں تھا۔ اسی لئے عکس بندی کے لئے بمبئی کا رخ کیا تو ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں پورے یونٹ نے سفر کیا۔ سرکٹ ہاؤس کے بڑے سے ہال میں زمین پر سوتے۔ وہ کہتے کہ رات میں جب بھی ان کی آنکھ کھلتی تو وہ خواجہ صاحب کو لالٹین پاس رکھے کچھ نہ کچھ لکھتے ہوئے دیکھتے۔ ’سات ہندوستانی‘ کے لئے خواجہ صاحب نے بھارت کے مختلف علاقوں سے سات اداکاروں کا انتخاب کیا تھا اور جو جس علاقے سے تعلق رکھتا تھا، اس کے برعکس اسے فلم میں کردار دیا گیا۔ اپتل دت، جلال آغا، دینا پاٹھک، انور علی اور اے کے ہینگل نمایاں ستارے تھے۔ خواجہ احمد عباس نے اس فلم کو قوسِ قزاح کے سات رنگوں سے تعبیر کیا۔
امیتابھ بچن کے مطابق خواجہ احمد عباس نے اس تخلیق کے ایک ایک منظر پر دل جان سے کام کیا۔ فلمی دنیا کی طرح امیتابھ بچن بھی خواجہ احمد عباس کو ’ماموں جان‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کم سرمائے سے تخلیق کی جانے والی اس فلم کے میک مین آرٹسٹ پنداری جوکر کے اخراجات ’ماموں جان‘ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ جبھی سبھی فنکاروں کو ایک ہفتے پہلے ہی میک اپ کر دیا جاتا۔ کیونکہ پنداری جوکر دوسرے فلمی پروجیکٹس میں مصروف ہوتے۔ امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ جب ان کے کسی منظر کے لئے سات دن پہلے داڑھی لگائی گئی تو وہ اس دوران نہائے تک نہیں۔ جبھی سونے کے لئے تکیے کے اوپر دوپٹے کا گولابنا کر چہرے کو تکیے سے اونچا رکھتے کہ کہیں داڑھی نکل نہ جائے۔
امیتابھ بچن ’ماموں جان‘ کو ایک شفیق دوست، رہنما اور نگراں قرار دیتے۔ جو مالی مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود، سیر سپاٹے کو نکلے فنکاروں کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہو جانے پر، ان سے رابطہ کرنے پر جیب سے رقم نکال کر دینے میں کبھی بھی ٹال مٹول سے کام نہیں لیتے۔ ’سات ہندوستانی‘ جب سنیما گھروں کی زینت بنی تو اس نے اوسط درجے کا کاروبار کیا لیکن یہ ضرور ہے کہ خواجہ احمد عباس کے ’بھانجے‘ امیتابھ بچن کے لئے اس پہلی کاوش کے بعد فلم نگری میں آگے بڑھنے کے مواقع کھل گئے۔