’امیتابھ بچن مفاد پرستی، پیشہ ورانہ رقابت اور حسد کی آگ میں جلتے انسان‘

’امیتابھ بچن مفاد پرستی، پیشہ ورانہ رقابت اور حسد کی آگ میں جلتے انسان‘
امیتابھ بچن اچھے اداکار تو ہوسکتے ہیں لیکن انسان نہیں۔ جو مقصد پورا ہونے پر نگاہیں پھیرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ خیالات ہیں حال ہی میں دنیا سے کوچ کر جانے والے بھارتی سیاست دان امر سنگھ کے جن سے کبھی امیتابھ کا پکا یارانہ تھا۔

وہی امر سنگھ جنہوں نے نوے کی دہائی میں امیتابھ بچن کی کمپنی ‘اے بی سی ایل’ کے مالی خسارے کے بعد انہیں مکمل طور پر دیوالیہ ہونے سے بچا لیا تھا۔ رہی سہی کسر امیتابھ کی ایک کے بعد ایک فلموں کی ناکامی نے پوری کر دی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ امیتابھ بچن کا بنگلہ نیلامی کے قریب پہنچ گیا اور پھر سب نے دیکھا کہ سماج وادی پارٹی کے امر سنگھ نے کروڑوں روپے کا قرضہ دے کر امیتابھ بچن کو پھر سے قدم جمانے کا موقع دیا۔ یہیں سے امر سنگھ اور امیتابھ بچن کی دوستی کی نئی داستان کا آغاز ہوا۔ جو امیتابھ بچن کی ‘غرض’ کے کچے دھاگے سے بندھی تھی۔ جس کے ذریعے جیا بچن، امر سنگھ کی جماعت کے بل بوتے پر رکن اسمبلی تک بنیں۔ لیکن پھر امیتابھ بچن نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کیا اور بے چارے امر سنگھ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ امیتابھ بچن بہترین اداکار تو ہیں لیکن انسان نہیں۔

کیا ایسا ہی ہے؟

یہ سوال امیتابھ کے پرستاروں کے ذہنوں میں تو کبھی آہی نہیں سکتا۔ لیکن ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو ایک کے بعد ایسے واقعات کا سلسلہ ملتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اداکاری اور قد وقامت میں بھلے امیتابھ بچن بلند ہوں لیکن درحقیقت وہ پست ذہنیت اور پیشہ ورانہ رقابت کی آگ میں کھولتے ہوئے انسان ہیں۔ جو اپنے سامنے کھڑی ‘دیوار’ کو ‘ہیرا پھیری’ کے ‘دو اور دو پانچ’ کر کے بالی وڈ کے کبھی ‘ڈان’ تو کبھی 'شہنشاہ’ بننے میں نمایاں رہے۔

درحقیقت امیتابھ بچن ہر دور میں خود کو ‘غیر محفوظ’ ہی تصور کرتے آئے ہیں، دوسرے اداکاروں کی کامیابی اور شہرت سے خوف زدہ اور سہمے رہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے لیکن امیتابھ بچن کی ڈکشنری میں جنگ اور محبت کے ساتھ ساتھ ‘اسٹارڈم’ کا اضافہ رہا ہے۔ امیتابھ بچن کو ابتدا سے ہی اداکاری کا جنون رہا۔ سستے فوٹو شوٹ کروا کے وہ ہر پروڈکشن ہاؤس کو بھیجتے رہتے۔ والد ہری ونش رائے بچن، نہرو کے دور میں وزارت خارجہ میں ہندی مترجم تھے۔ نہرو خاندان سے قریبی مراسم تھے۔ پہلی فلم ’سات ہندوستانی‘ میں کام کرنے کے بعد امیتابھ بچن کو اُس وقت مایوسی ہوئی جب انہیں کسی اور پروڈکشن ہاؤس کی طرف سے کوئی پیش کش نہ ملی۔

سنیل دت نے ‘ریشماں اور شیرا’ بنائی تو امیتابھ بچن کو فلم میں ‘سیاسی دباؤ’ کے تحت شامل کیا۔ لیکن انہوں نے ہوشیاری اور غصہ دکھاتے ہوئے جان بوجھ کر فلم میں امیتابھ بچن کو گویائی سے محروم انسان کے روپ میں پیش کیا۔ امیتابھ بچن نے ‘گاندھی کارڈ’ کو بڑے بھرپور اور موثر انداز میں اُس وقت استعمال کیا جب بھی وہ مشکلات سے دوچار ہوئے۔ راجیو گاندھی سے دوستی گاڑھ کر وہ آنے والے دنوں میں بہت کچھ حاصل کر گئے۔ یہاں تک کہ راجیو اور سنجے گاندھی کے بعد انہیں اندر گاندھی کا تیسرا بیٹا بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن یہ کیسی تلخ حقیقت ہے کہ راجیو گاندھی کی موت کے بعد امیتابھ بچن نے اس خاندان کو مشکل میں چھوڑ کر اپنی راہیں جدا کر لیں۔ پھر کبھی وہ امر سنگھ کے در گئے تو کبھی بال ٹھاکرے کو اپنا نجات دہندہ مانا۔

ان دنوں وہ انتہا پسند مودی سے پینگیں بڑھائے ہوئے ہیں۔ یعنی چڑھتے سورج کی پوجا کا خوبصورت عملی مظاہرہ کرنے میں اپنی مثال آپ رہے۔ پروین بوبی کا کہنا تھا کہ امیتابھ بچن کو لوگوں کو استعمال کرنے کا فن آتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کیسے اور کب کسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اداکارہ کے مطابق دیوار، کالیہ، شان، کالا پتھر کے ان کے اس ہیرو نے اُن کی آنکھوں میں بھی کئی سپنےجھلمائے۔ یہ وہ دور تھا جب امیتابھ بچن اور پروین بوبی کی جوڑی پردہ سیمیں پر سپر ہٹ سمجھی جاتی تھی۔ امیتابھ بچن کی شامیں، پروین بوبی کی خوبصورتی اور زلفوں کی تعریف میں گزرتیں۔ فلمی جرائد رنگ رنگیلی کہانیاں بیان کرتے لیکن امیتابھ بچن کو ان پر کبھی بھی اعتراض نہیں رہا کیونکہ وہ خود جانتے تھے کہ یہ سکینڈل ان کے لیے فلم کیرئیر کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ لیکن پھر بدقسمتی سے پروین بوبی پر زوال آنے لگا تو امیتابھ بچن اُن کے گھر کا راستہ ہی بھول گئے۔ پروین بوبی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوئیں۔

مہیش بھٹ، ڈینی اور کبھی کبیر بیدی میں امیتابھ بچن کی کھوئی ہوئی محبت ڈھونڈنے پر مجبور ہوئیں۔ یہاں تک انہوں نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ امیتابھ بچن انہیں جان سے مارنا چاہتے ہیں۔ کورٹ کچہری ہوئی تو امیتابھ بچن صاف بچ گئے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ امیتابھ بچن نے پروین بوبی کو پیار کا جھانسا بالکل ایسے ہی دیا جیسے ریکھا کو۔ امیتابھ اور ریکھا کا کیرئیر کم و بیش ایک ساتھ شروع ہوا۔ اس جوڑی نے دو انجانے، نمک حرام، گنگا کی سوگند، ایمان دھرم، الاپ، سہاگ اور مقدر کا سکندر، رام بلرام، خون پسینہ، مسٹر نٹور لال اور سلسلہ جیسی سپر ہٹ فلموں کا تحفہ دیا۔ دونوں کی پیار بھری داستان زبان زد عام ہوئی۔ امیتابھ بچن اور ریکھا کی اس ہٹ جوڑی کو ہر فلم ساز اپنی تخلیق میں استعمال کرتا۔ امیتابھ بچن کو حقیقی معنوں میں ‘سپر اسٹار’ بنانے میں ریکھا کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن امیتابھ بچن جانتے تھے کہ کب اور کہاں تک ریکھا کا استعمال کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے عشق کے سمندر میں غوطہ لگاتی ریکھا کو اُس وقت زور کا جھٹکا لگا جب ‘سلسلہ’ کے بعد امیتابھ نے ریکھا سے دوری اختیار کر لی۔ ریکھا کو اسی صدمے اور کیفیت سے دوچار ہوئیں جس کا پروین بوبی گزری تھیں، لیکن ریکھا پروین کی طرح کمزور نہیں تھیں جو ٹوٹ کر بکھر جاتیں۔ بلکہ انٹرویوز میں ڈھکے چھپے لفظوں تو کبھی کھلم کھلا امیتابھ بچن کو ‘بے وفا’ اور ‘ہرجائی’ قرار دیتے ہوئے اس بات کا شکوہ کیا کہ انہیں اپنی امیج، خاندان اور اسٹار ڈم کی زیادہ پرواہ تھی اور جہاں انہیں احساس ہونے لگا کہ ریکھا ان کی ساکھ کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ امیتابھ نے اُن سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ ریکھا نے ٹوٹے دل کے ساتھ ایک اور انٹرویو میں مہدی حسن کی یہ غزل سنائی کہ ’مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو ، مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکوگے‘۔

یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ امیتابھ بچن نے خود کو بالی وڈ کا ‘شہنشاہ’ بنانے کے لیے کئی بادشاہوں کو راستے سے ہٹایا۔ پیشہ ورانہ جلن اور حسد کی آگ نے ان سے وہ ہر کام کروایا جس کے ذریعے وہ تن تنہا سپراسٹار کا درجہ حاصل کر جائیں۔ ماضی کے سپر اسٹار راجیش کھنہ کے ساتھ جب انہوں نے آنند میں کام کیا تو اُنہی دنوں میں امیتابھ بچن نے سب سے پہلے راجیش کھنہ کو اپنے لیے راہ کی سب سے بڑی دیوار تسلیم کر لیا تھا۔ خیر یہ تو راجیش کھنہ کی بدقسمتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ان پر ناکامی کے بادل چھا گئے لیکن اسی کی دہائی میں ‘اوتار’ اور ‘اگر تم نہ ہوتے’ نے راجیش کھنہ کو پھر سے فلم نگری میں دوبارہ کھوئی ہوئی ساکھ کو برقرار رکھنے کا موقع ملا۔ اسی دوران ان کی ایک اور فلم ‘آج کا ایم ایل اے رام اوتار’ تیار ہوئی، جس کی کہانی امیتابھ بچن کی ‘انقلاب’ سے ملتی جلتی تھی۔ امیتابھ بچن کو یہ خوف ستانے لگا کہ کہیں پھر سے راجیش کھنہ ان سے ‘سپر اسٹار’ کا تاج نہ چھین لیں۔ اسی لیے سب سے پہلے انہوں نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس فلم کو سنسر میں لٹکا دیا۔ اب امیتابھ بچن کی بدقسمتی ہی کہیے کہ ان کی فلم ‘انقلاب’ کے تشدد سے بھرے کلائمکس پر سنسر بورڈ نے اعتراض کر دیا، جس پر امیتابھ بچن حواس باختہ ایسے ہوئے کہ دہلی پہنچ گئے اور ایک بار پھر ‘گاندھی کارڈ’ استعمال کرتے ہوئے اس فلم کو دہلی سے ہی سنسر سرٹیفکٹ دلوا دیا۔ اب یہ اور یہ بات ہے کہ راجیش کھنہ کی فلم سے ایک مہینے پہلے آنے والی ‘انقلاب’ پھر بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ کچھ ایسی ہی سازشوں سے دوچار تو ونود کھنہ بھی ہوئے۔

ستر کی دہائی میں ونود کھنہ نے چند ہی کامیاب فلموں میں کام کر کے امیتابھ بچن کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ یہ بھی حسن اتفاق ہی ہے کہ راجیش کھنہ کی طرح ونود کھنہ کے ساتھ امیتابھ بچن نے اپنے کیرئیر کی ابتدا میں ‘ریشماں اور شیرا‘ میں کام کر لیا تھا۔ گوکہ بعد میں امر اکبر انتھونی، خون پسینہ، ہیرا پھیری اور پرورش میں دونوں یکجاں ہوئے اور فلمی پنڈت یہ لکھنے اور پیش گوئی کرنے پر مجبور ہوگئے کہ ونود کھنہ ہی امیتابھ بچن کی سلطنت کو ہلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ جہاں ونود کھنہ کی غیر معمولی اداکاری تھی وہیں مردانہ وجاہت سے بھرپور ان کا رنگ و روپ تھا اور یہی بات امیتابھ بچن کو ذہنی اضطرابی کا باعث بنا رہی تھی۔ جب دونوں ‘مقدر کا سکندر’ میں کام کررہے تھے تو فلم کے طے شدہ منظر کے برعکس امیتابھ بچن نے جان بوجھ کر ونود کھنہ کے چہرے پر گلاس دے مارا۔ جس کی وجہ سے وہ خونم خون ہوگئے اور انہیں ٹانکے تک آئے۔ دراصل یہ امیتابھ بچن کا ونود کھنہ پر اندورنی غصہ تھا جو انہیں اس قدر اشتعال دلا گیا کہ وہ اس حد تک جاپہنچے۔ ونود کھنہ اس پیشہ ورانہ رقابت اور رویے پر اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انہوں نے ‘مقدر کا سکندر’ کے بعد امیتابھ کے ساتھ کسی اور فلم میں کام نہ کرنے کی ٹھان لی۔ یہ تو امیتابھ بچن کی قسمت اچھی تھی کہ عین عروج کے دور میں ونود کھنہ نے فلموں سے سنیاس لے لیا ورنہ کہانی وہی ہوتی جس کی فلمی پنڈت پیش گوئی کرچکے تھے۔

کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا شترو گھن سنہا کو بھی ‘کالا پتھر’ کی عکس بندی کے دوران کرنا پڑا۔ جب ایک منظر میں امیتابھ بچن نے شترو گھن سنہا پر تابڑ توڑمکوں کی برسات کر دی۔ شترو گھن سنہا اس حقیقی مار کٹائی پر ہکا بکا تھے۔ جبھی انہوں نے جوابی وار کر کے امیتابھ بچن کو دور گرا دیا۔ اگر ششی کپور درمیان میں نہ آتے تو ممکن ہے کہ دونوں کے درمیان یہ جنگ خون میں ڈوب جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ امیتابھ بچن، ونود کھنہ کی طرح شترو گھن سنہا کی مقبولیت اور شہرت سے خاصے خائف تھے۔ امیتابھ بچن کے عتاب اور بے حسی کا نشانہ بننے والوں میں سلیم خان اور قادر خان بھی شامل ہیں۔

سلیم خان نے درحقیقت امیتابھ بچن کی ‘اینگری ینگ مین’ والا امیج ‘زنجیر’ کے ذریعے نمایاں کیا، جو امیتابھ کے لیے خوش قسمتی کا دروازہ کھول گئی۔ یہ کردار سیلم خان نے اپنے والد کو ذہن میں رکھ کر تخلیق کیا تھا۔ جوپولیس میں اپنے دبنگ انداز کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ سلیم خان کے مطابق انہوں نے ہی پرکاش مہرہ سے امیتابھ بچن کی اس فلم کے لیے سفارش کی تھی، جب انہوں نے یہ کردار لکھ لیا اُس کے بعد ہی جاوید اختر سلیم خان سے ملے اور پھر اس جوڑی نے امیتابھ بچن کے لیے شعلے، ترشول، کالا پتھر، شان، شکتی، دیوار جیسی فلمیں لکھیں۔

جاوید اختر سے علیحدگی کے بعد سلیم خان نے نوے کی دہائی میں جب امیتابھ بچن کی فلم 'اکیلا’ لکھی تو یہ باکس آفس پر بری طرح پٹ گئی۔ جس کا سارا غصہ امیتابھ بچن نے سلیم خان پر یوں نکالا کہ ان کی اگلی فلم جس میں سری دیوی دہرے کردار نبھانے والی تھیں اس کے لیے صاف انکار کردیا جس پر سلیم خان آگ بگولہ ہوگئے۔ انہیں یقین نہیں آیا کہ جس اداکار کو انہوں نے سپر اسٹار بنایا وہ ان کے احسانوں کا بدلہ صرف ایک فلم کی ناکامی کے بعد ‘انکار’ کی صورت میں دے گا۔

کچھ ایسا ہی امیتابھ بچن نے کشور کمار کے ساتھ بھی کیا۔ جنہوں نے ان کے لیے سب سے زیادہ پلے بیک سنگنگ کی۔ کشور کی آواز نے امیتابھ بچن کو ایک نئی پہچان دی۔ انیس سو تراسی میں جب کشور کمار ایک فلم ‘ممتا کی چھاؤں’ بنارہے تھے اور امیتابھ بچن کو مہمان اداکار کے طور پر پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی تو امیتابھ بچن نے انہیں ٹکا سا انکار کردیا۔ جس پر کشور کمار بھی ان سے مقابلے پر آگئے۔ دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ اب امیتابھ کے لیے پس پردہ گلوکاری نہیں کریں گے۔ اس دوران امیتابھ کی کئی فلمیں آئیں اور ان کے لیے محمد عزیز اور شبیر کمار کی آواز استعمال کی گئیں۔ گانے وہ مقبولیت نہ پاسکے جو کشور کمار کی گلوکاری کی بنا پر امیتابھ بچن کے حصے میں آتی تھی۔ جبھی مفاد پرستی کی چادر اوڑھ کر امیتابھ بچن نے کشور کمارسے اپنے رویے کی معذرت کرنے میں ہی عافیت جانی۔

قادر خان جنہوں نے امیتابھ بچن کو سپر اسٹار بنانے کے لیے وہی کردار ادا کیا جو سلیم خان کرچکے تھے، جنہوں نے برے وقتوں میں امیتابھ بچن کے لیے خون پسینہ، پرورش، نصیب، امر اکبر انتھونی، مقدر کا سکندر، مسٹر نٹور لال، یارانہ، ہم، شنہشاہ اور نجانے کتنی اور کامیاب فلموں کے ڈائیلاگ اور کہانیاں لکھیں۔ لیکن شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچتے ہی امیتابھ بچن نے انہیں بھی آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔ محض ‘سر جی’ نہ کہنے پر امیتابھ بچن نے قادر خان کی اپنی کیمپ سے چھٹی ہی کرادی۔ قادر خان کا موقف تھا کہ امیتابھ بچن ان کے دوست ہیں اور بھلا دوست کو کوئی ‘سرجی’ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔

کچھ ایسی ہی صورتحال ٹینو آنند کے ساتھ بھی پیش آئی۔ وہی ٹینو آنند جن کا لب و لہجہ امیتابھ بچن کئی فلموں میں کاپی کرتے تھے۔ جنہوں نے امیتابھ بچن کو پہلی بار ‘سات ہندوستانی’ میں اپنی جگہ موقع دیا تھا۔ ‘کالیہ’ کے سیٹ پر امیتابھ بچن نے ایک شاعرانہ انقلابی ڈائیلاگ ادانہ کرنے کی ضد پکڑ لی۔ لیکن ٹینو آنند بھی ڈٹ گئے۔ بحالت مجبوری امیتابھ بچن کو وہی کرنا پڑا جو ٹینو آنند کی خواہش تھی۔ لیکن سیٹ پر وہ اس قدر غصے میں آگئے کہ اپنے اس ہدایتکار اور دوست کو سب کے سامنے ‘ڈھیٹ ’ کہہ گئے۔ خیر امیتابھ بچن نے اچھا تو محمود کے ساتھ بھی نہیں کیا۔ جنہوں نےامیتابھ بچن کو ‘بمبی ٹو گوا’ میں لاکھ مخالفتوں کے باوجود کاسٹ کیا تھا۔ جس کے بعد امیتابھ بچن کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ محمود کو اس بات کا رنج رہا ہے کہ جس ہسپتال میں ان کا بائی پاس ہوا، وہاں امیتابھ بچن کے والد بھی زیر علاج تھے۔ لیکن ہسپتال اور ناہی کبھی گھر میں امیتابھ بچن نے محمود کی عیادت تو کیا تہنیتی کارڈ تک روانہ کرنا گوارہ نہ کیا۔

کہانیاں صرف امیتابھ بچن کی انا اور مفاد پرستی کی ہی نہیں بلکہ دوشخصیات تو ان پر جنسی ہراسگی کا الزام بھی لگاچکی ہیں۔ ان میں ‘دی ٹرین’ فیم اداکارہ سیالی بھگت تھیں جن کا کہنا تھا کہ امیتابھ بچن نے ایک تقریب کے دوران ان کے ساتھ نازیبا حرکت کی۔ سیالی بھگت ثبوت تو نہ دے سکیں لیکن ان کے خلاف امیتابھ بچن کی ‘میڈیا لابنگ’ نے ایسا مورچہ بنایا کہ وہ ڈر اور سہم کر اپنے بیان سے ہی مکر گئیں۔ دیکھنے کو یہاں تک ملا کہ ان پر بالی وڈ کے دروازے تک بند کردیے گئے۔

امیتابھ بچن پر جنسی ہراساں کرنے کی دہائی ہیر اسٹائلسٹ سپنا بھوانانی بھی کرچکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امیتابھ بچن کے زیر اثر ‘طاقت ور لابی’ ایسی ہے کہ کوئی بھی ان کے خلاف بولنے پر تیار نہیں ہوتا۔ جو لب کشائی کرتا ہے اس کا انجام سیالی بھگت یا پھر سپنا بھوانانی جیسا ہوتا ہے۔ امیتابھ بچن کی شخصیت اور ان کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے انہی کی انیس سو تہتر میں آئی فلم ‘سوداگر’ کافی ہے۔ جو کہانی بیان کرتی ہے ایسے موقع پرست اور کینہ پرور انسان کی جو اپنے مفاد اور لالچ کے خاطر کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ جو اپنی خواہشات اور آرزوں کو پورا کرنے کے لیے راہ میں حائل ہر دیوار کومکاری اور سازش سے گراسکتا ہے۔ وقت پڑنے پر دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنانے میں کوئی تاخیر نہیں کرتا۔ سوداگر کی طرح حقیقی زندگی میں بھی امیتابھ بچن اپنی شاطرانہ چالوں اور دوسروں کے ارمانوں کو کچلنے کے باوجود ناکام کبھی بھی نہ رہے۔ جبھی بلاشبہ کہیں نہ کہیں امر سنگھ کی یہ بات سچ لگتی ہے کہ امیتابھ بچن بہترین اداکار تو ہیں انسان نہیں۔