سیکرٹری تعلیم کہتے ہیں سکولوں کی عمارتوں کی کمی بلوچستان کا مسئلہ ہیں۔ حکومتی ناکامیوں کا کوئی کردار نہیں؟

سیکرٹری تعلیم کہتے ہیں سکولوں کی عمارتوں کی کمی بلوچستان کا مسئلہ ہیں۔ حکومتی ناکامیوں کا کوئی کردار نہیں؟
کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کیلئے اس پر بم یا میزائل گرانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ  مقصد اس قوم کے تعلیمی نظام کے معیار کو گرا کر اور بدعنوانی و دھوکہ دہی کو سماجی قبولیت دلوا کر پورا کیا جا سکتا ہے۔ ہسپتالوں کے دروازوں پر علاج کیلئے دھکے کھاتے مریضوں کی ہمت کو داد دینی چاہیے کہ وہ اس قدر تکالیف اٹھانے کے باوجود ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی کوشش جاری رکھتے ہیں جو خواہش نامراد ہی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح عمارتیں بھی آئے روز کہیں نہ کہیں زمیں بوس ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ انجئنیرز اور اکاؤنٹنٹ کا لوگوں سے رشوت لیکر نقشے پاس کرنا ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کے معیار میں بہتری ابھی بھی ایک خواب کی مانند ہے۔ مڈل اور ہائی سکولوں کے مسائل بیحد زیادہ ہیں۔ یہاں سکولوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ صوبے میں موجود 13 ہزار سکولوں میں سے 963  سکولوں کو ابھی فعال نہیں کیا جا سکا۔

سکولوں کے غیر فعال ہونے کی بنیادی وجہ

بلوچستان کے سیکرٹری تعلیم شان الحق نے عمارتوں اور اساتذہ کی کمی کو سکولوں کے غیرفعال ہونے کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔ ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بچوں کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ یہ ابھی بھی زندگی کے بنیادی حق یعنی معیاری تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ گو سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے (گذشتہ برس سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 2 کروڑ 40 لاکھ تھی جبکہ رواں سال یہ تعداد 2 کروڑ 26 لاکھ ہے)۔ سال 2015 سے لیکر 2018  تک کے اعداد و شمار ایک پریشان کن تصویر پیش کرتے ہیں اور فوری طور پر تعلیمی ایمرجینسی نافذ کرنے کے متقاضی ہیں۔ سکول جانے کی عمر والے بچے جو کہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کی حد میں ہیں ان کی 44 فیصد تعداد سکول نہیں جا پاتی۔ اس خراب صورتحال کی بنیادی وجوہات غربت اور سکولوں کی کمی ہے۔ کسی بھی  قسم کے انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی، پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونا، غسل خانوں اور سکول کے احاطوں کی دیواروں کی غیرموجودگی، سکولوں میں بڑی تعداد میں طلبہ کے داخلہ نہ لے پانے کا مؤجب بنتی ہیں۔ بدقسمتی سے سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کی فہرست میں بلوچستان کا صوبہ اول نمبر پر ہے جہاں 66 فیصد بچے سکول نہیں جاتے جب کہ سندھ کا نمبر دوسرا ہے جہاں 51 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

بلوچتتان میں بچیوں کی تعلیم

بچیوں کی حالت زار اس ضمن میں مزید تشویش ناک ہے۔ بچیوں کی تعلیم کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ صوبے کے دیہی علاقوں میں بچیوں کو علم سے آراستہ کرنے کا  رواج  اور مواقع موجود نہیں ہیں۔ زبوں حالی کا شکار تعلیمی نظام، سکولوں کی کمی، لائبریریوں کی عدم موجودگی اور فنڈز کا میسر نہ ہونا اس پسماندگی کی وجوہات ہیں۔ دیہی علاقہ جات کو حکومت کی جانب سے نظر انداز کیا گیا ہے اور ان علاقوں کے لوگ بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔ دیہی علاقوں میں پرائمری سکول موجود ہیں لیکن بچیوں کا کوئی ہائی سکول ابھی تک قائم نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔ بلوچستان میں تیرہ ہزار سکول موجود ہیں لیکن ان میں سے محض پچیس سو سکول بچیوں کیلئے ہیں۔ بلوچستان میں زیادہ تر بچیاں سکول نہیں جاتیں اور کپڑوں کی سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں۔

پاکستان کا تعلیمی اٹلس

حال ہی میں پاکستان کے تعلیمی اٹلس کی جانب سے پیش کردہ رپوٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ 36,408 پرائمری سکولوں کو صرف ایک ایک استاد میسر ہے اور بلوچستان میں تقریباً 54 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک سٹاف ہی تعینات ہے۔ نائجیریا کے بعد سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ بدقسمتی سے سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان نائجیریا کے بعد دوسرا  بدترین ملک ہے۔ بلوچستان اور سندھ تعلیم اور صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کا شکار ہیں اور ان دونوں صوبوں کو صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق  بلوچستان میں پانچویں کلاس میں پڑھنے والے طلبہ کی 60 فیصد تعداد کلاس دوئم کی انگریزی کی کتابیں پڑھنے کی اہلیت سے محروم ہے۔ یہ ہمارے لئے انتہائی اہم مسئلہ ہے جس کے تدارک کیلئے فوری طور پر غور و فکر کی ضرورت درپیش ہے۔

فرضی سکول

بلوچستان میں سینکڑوں فرضی سکول ہیں جو محض کاغذوں میں دکھتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لیکن کوئی بھی اس پر توجہ دیتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح جعلی اور فرضی اساتذہ بھی بچوں کا مستقبل تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ وہ بچے جو پسماندہ علاقوں کے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں انہیں کرسیاں، اساتذہ، بیت الخلا، پینے کے پانی، بجلی، سکول کی کتابوں کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ یہ انتہائی کرب کی بات ہے کہ اساتذہ سکولوں سے غیر حاضر رہنے کے باوجود تنخواہیں حاصل کر رہے ہیں اور حکومت کی اس ضمن میں لاپروائی یہاں کے بسنے والوں کیلئے تشویش کا باعث ہے۔

سفارشی کلچر پورے تعلیمی نظام کو تباہ کر رہا ہے

بلوچستان میں زیادہ تر اساتذہ میرٹ کی بجائے سفارشات پر بھرتی کیے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم آج اس تباہی کا شکار ہیں۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ تمام صوبائی حکومتوں سے بدتر ہے کیونکہ یہ ان مسائل پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتی۔