گومل یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاج، پولیس کا تشدد اور پرچے

گومل یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاج، پولیس کا تشدد اور پرچے
فیسوں میں اضافے کیخلاف خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع گومل یونیورسٹی میں قبائل سمیت مختلف سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا ایک ماہ سے احتجاج جاری ہے مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے مطالبات نہ مانتے ہوئے احتجاج کرنے والے طلبہ پر 20 ہزار سے 50 ہزار تک کے جرمانے عائد کر دیے گئے ہیں۔

یونیورسٹی طالب علم محمود غزنوی کے مطابق پچھلے سال فارمیسی فیس 1 لاکھ 26 ہزار تھی لیکن اس سال اسے بڑھا کر 1 لاکھ 66 ہزار کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح مختلف شعبوں جیسے ہاسٹل وغیرہ کی فیسوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ کر دیا گیا۔ جس کیخلاف طلبہ تنظیم متحدہ طلبہ محاذ تقریباً ایک ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل جی پی او چوک سٹی (ڈیرہ اسماعیل خان) سے مین کیمپس گومل یونیورسٹی  تک طلبہ نے پیدل مارچ کیا، اور رات کے وقت ایک ٹینٹ لگا کر احتجاجی کیمپ لگایا۔ جس کیخلاف متعلقہ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ہمارے کچھ ساتھیوں کو گرفتار کر لیا جن کی رہائی کیلئے طلبہ نے اگلے روز صبح احتجاجی طور روڈ بند کیا تو  گرفتار طلبہ کو رہا کیا گیا۔

مطالبات پورے نہ ہونے پر ایک بار پھر طلبہ نے سوشل میڈیا پر احتجاجی کمپین چلائی تو وائس چانسلر چودھری سرور گجر اور رجسٹرار دلنواز نے اچانک یونیورسٹی میں یکم مارچ تک چھٹیوں کا نوٹیفیکشن جاری کر دیا۔ جس کے نتیجے میں گذشتہ منگل کے روز ایک بار پھر ہم نے پرامن طریقے سے یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے احتجاج شروع کر دیا۔ اس دوران پولیس نے ہمارے ایک طالبعلم ساتھی کو گرفتار کر لیا۔ تو ہم نے عاجزی سے منتیں کیں مگر پولیس نہیں مانی پھر مجبوراً مین ہائی وے بند کرنا پڑا تو پولیس نے ہمیں کہا کہ آپ روڈ کھول دو، پانچ منٹ میں آپ کے ساتھی کو رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن، ایک گھنٹہ گزرنے کے باوجود اس طالبعلم کو نہیں چھوڑا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران اچانک سے بھاری نفری میں پولیس اہلکار آئے اور انہوں نے احتجاج کرنے والے تمام طلبہ پر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ اور متعدد طلبہ کو تھانہ یونیورسٹی بند کر کے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے خلاف بے بنیاد پرچے ختم کیے جائیں اور جائز مطالبات پر فوراً عمل کر کے طالبعلم دشمن پالیسیاں ختم کی جائیں۔



مقامی صحافی فراز مغل نے جب طلبہ پر جاری وحشیانہ تشدد کی ویڈیوز بنانے کی کوشش کی تو نہ صرف پولیس نے ان کا موبائل چھین لیا بلکہ کیمرہ مین پر بھی تشدد کیا۔ اس معاملے پر میں نے وائس چانسلر چوہدری محمد سرور گجر کا موقف لینے کیلئے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم ایس ایچ او تھانہ یونیورسٹی ثنااللہ بلوچ نے نیا دور کو بتایا کہ ان طلبہ نے وائس چانسلر اور رجسٹرار یونیورسٹی کیخلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے کار سرکار میں مداخلت اور ہائی وے روڈ بند کر دیا تھا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس نے 14 نامزد اور باقی نامعلوم طلبہ کیخلاف ایف آئی آرز درج کی ہیں۔



سوشل میڈیا پر واقعے کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ٹوئٹ کیا کہ ‏ گومل یونیورسٹی میں پرامن مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر پولیس کا بہیمانہ تشدد اور طلبہ تنظیموں کے اراکین کی گرفتاریاں انتہائی قابل مذمت اور شرمناک عمل ہے۔ کافی عرصے سے تعلیمی اداروں خصوصاً گومل یونیورسٹی کو دہشت زدہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تمام طلبہ کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

‏پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے گومل یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج و مؤقف کی حمایت کی گئی اور طلبہ کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان پر تشدد اور انتقامی کاروائیوں سمیت یونیورسٹی کو بند کرنا بلاجواز قرار دیا گیا۔





مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔