گذشتہ 24 فروری کو سائبر کرائم اور نجی چینل کے اینکر اقرار الحسن نے گومل یونیورسٹی کے اسلامیات عربک ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین اور سٹی کیمپس کوارڈینیٹر پروفیسر حافظ صلاح الدین کے خلاف مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے انہیں رنگے ہاتھ پکڑنے کا دعوی کیا تو یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔
پروفیسر صلاح الدین پر خواتین اساتذہ و یونیورسٹی کے طالبات کو حراساں کرنے کا الزام تھا۔ اس دوران جب معاملہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر آیا تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر چودھری محمد سرور گجر نے موقع پر ہی پروفیسر صلاح الدین سے استعفی طلب کیا جو انہوں نے فوراً دے دیا تھا۔ پروفیسر صلاح الدین نے سینئر سول جج نمبر 2 ڈیرہ اسماعیل خان کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی جس میں پیمرا، اے آر وائی میڈیا گروپ، پروگرام اینکر اقرارالحسن اور مقامی نمائندہ اے آر آئی کے خلاف دیوانی دعویٰ دائر کیا اور عدالت سے استدعا کی کہ میرے خلاف ریکارڈ کئے گئے پروگرام کو نشر نہ کیا جائے۔ کیونکہ میرے خلاف اپنی یونیورسٹی میں سے کسی نے شکایت نہیں کی بلکہ مجھے اینکر نے ایک لڑکی جو یونیورسٹی کی طالبہ نہیں کے ذریعے بلیک میل کر کے ویڈیو بنائی۔
عدالت میں حکم امتناعی ( stay ) کی درخواست پر بحث کے دوران فاضل جج نے درخوست برائے حکم امتناعی پر وکیل مدعی کی بحث سننے کے بعد stay بحق مدعی جاری نہیں کیا۔ یعنی عدالت کی طرف سے پروگرام کو نشر نہ کرنے کی استدعا پر عمل نہیں کیا گیا اور یوں یہ درخواست خارج تصور کی گئی۔ جس کے بعد پروفیسر صلاح الدین نے پیمرا اسلام آباد سے رجوع کر لیا تاہم اس کی معلومات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پوری یونیورسٹی میں سے ملزم ایک صلاح دین ہے یا پھر ایک گروہ کار فرما ہے؟
فیس بک صارف ہادیہ خان اپنی ایک پوسٹ میں لکھتی ہیں کہ: وائس چانسلر چودھری محمد سرور نے ایک بیان میں کہا ہے کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے پروفیسر صلاح الدین کے خلاف کوئی مدعی نہیں ہے، اور نہ ہی میں اداروں اور ایجنسیوں کو مذکورہ کیس سرکاری طور پر ارسال کر سکتا ہوں۔
انہوں مزید کہا کہ قبل ازیں شعبہ علوم اسلامیہ و عربی کی طالبات اور طلبہ نے آپ کو تحریری درخواستیں؟ واٹس ایپ ثبوت دکھائے اور کئی دفعہ شکایات کیں؟ کیا آپ نے شعبہ جا کر طالبات اور اساتذہ کے بیانات قلمبند نہیں کیے؟ ہادیہ نے مزید الزام لگایا کہ عطیہ عرش کی تحریری درخواست پر کیا کارروائی کی؟ الٹا آپ نے اس کے رشتہ دار پر دباؤ ڈال کر کیس کو دبایا اور وہ صاحب بھی پروفیسری کے لالچ میں خاموش ہو گیا۔ مسٹر وائس چانسلر آپ نے ڈاکٹر نور عباس دین اور ڈاکٹر اللہ نواز پر مشتمل انکوائری کمیٹی بنائی تھی جس نے آپ کو سفارشات پیش کیں کہ موصوف صلاح الدین کو کوئی انتظامی عہدہ نہ دیا جائے اور طالبات کی سپرویزن بھی نہ دی جائے۔ لیکن آپ نے تو گورنر انکوائری کمیشن جس کو 5 ایڈیشنل سیکریٹریز نے مرتب کیا تھا، اور اس درندے کو ملزم قرار دے کر یہی سفارشات کی گئی تھیں لیکن آپ اس سب کے باوجود ملزم کو عہدے پر عہدے عطا کرتے رہے۔
ایک اور صارف عدنان بیٹی نے دعوی کیا کہ: اے آر وائی کے پروگرام کی ریکارڈ کے دوران پروفیسر صلاح الدین نے اصل عہدے سے نہیں بلکہ اعزازی عہدے سے استعفی دیا ہے۔ یعنی وہ اپنے مقررہ وقت پر ریٹائرڈ ہوں گے اور رئٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں تمام سرکاری مراعات حاصل ہوں گی۔ لیکن اقرار الحسن نے ان کا کیس ہلکا ضرور کردیا اور اصل کرداروں کے لئے بھی رستہ ہموار کر دیا۔ کچھ دن خاموشی کے بعد وہی کردار دوبارہ نمودار ہو جائیں گے۔
جب ان تمام الزامات بارے گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر چودھری محمد سرور سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا تو انہوں نے تمام پیغامات کے 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ایسے واقعات کی روک تھام کیسے کی جائے؟
اس کی روک تھام تبھی ممکن ہے جب کبھی بھی ایسا واقع کسی کے ساتھ پیش آئے تو اس کو منظر عام پر لایا جائے۔ لیکن مثاثرہ شخص اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے کیوں وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ بات باہر چلی گئی تو بدنامی ہوجائے گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی جنسی زیادتی کا شکار سامنے نہیں آتا۔
یاد رہے کہ کئی سال قبل بھی گومل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر راشد منیر کا یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے ساتھ غیر اخلاقی ویڈیو سکینڈل سامنے آیا تھا۔ جس میں پروفیسر راشد یونیورسٹی طالبات کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کرتے تھے۔ یہ سکینڈل منظر عام ہوا تو پروفیسر راشد منیر کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ لیکن بعد ازاں دوبارہ ملازمت پر بحال کر دیا گیا تھا۔
مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔