گومل یونیورسٹی کا قیام پاکستان کی تعلیمی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس یونیورسٹی کی بنیاد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یکم مئی 1974 کو رکھی، جس کا مقصد ایک جدید اور اعلیٰ تعلیم یافتہ قوم کی تشکیل تھا۔ یہ یونیورسٹی خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہے اور اپنی عمدہ تعلیمی خدمات کے باعث پاکستان میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔
گومل یونیورسٹی کے قیام میں نواب اللہ نواز خان کا کردار نمایاں ہے، جنہوں نے یونیورسٹی کے لیے 11 ہزار کنال زرعی زمین عطیہ کی۔ نواب اللہ نواز خان یونیورسٹی کے پہلے اور بانی وائس چانسلر تھے اور ان کی کاوشوں سے یہ تعلیمی ادارہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہا۔
یونیورسٹی نے اپنی تعلیمی خدمات اور تحقیقی میدان میں نمایاں کامیابیوں کے ذریعے پاکستان کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کا قیام اور ارتقا ذوالفقار علی بھٹو اور نواب اللہ نواز خان کی بصیرت اور کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
گومل یونیورسٹی پاکستان کی بڑی اور معروف یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس یونیورسٹی میں 9 فیکلٹیز ہیں جن میں 58 مختلف ڈیپارٹمنٹس شامل ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق یہاں طلبہ و طالبات کی تعداد 24 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان عوامل کی بنا پر گومل یونیورسٹی ناصرف تعلیمی معیار بلکہ تعداد کے لحاظ سے بھی ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں شامل ہے۔
یونیورسٹی میں مختلف ڈیپارٹمنٹس موجود ہیں، جن میں فیکلٹی آف سائنس، فیکلٹی آف آرٹس، فیکلٹی آف انجینیئرنگ، فیکلٹی آف ایگریکلچر، فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز وغیرہ شامل ہیں۔
اگر بات کی جائے موجودہ مالی خسارے کی تو یونیورسٹی حالیہ دنوں میں شدید مالی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ وائس چانسلر گومل یونیورسٹی ڈاکٹر شکیب اللہ کے مطابق مالی بحران صرف اور صرف پینشنز کی وجہ سے ہے۔
جب میں نے وی سی گومل یونیورسٹی سے یہ سوال کیا کہ یونیورسٹی مالی بحران کی شکار ہے آپ کے پاس اسے بحران سے نکالنے کے لیے کون سا سولیوشن ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مالی بحران صرف اور صرف پینشنرز کی وجہ سے ہے، گومل یونیورسٹی میں جو نمبر آف سٹوڈنٹس ہیں وہ کسی بھی یونیورسٹی میں سب سے زیادہ ہیں۔ ہمارے پاس تقریباً 24 ہزار سٹوڈنٹس ہیں تو اس لیے ہمیں تنخواہوں کا کوئی بحران نہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی ہمارے اخراجات ہیں۔ 2 کروڑ ہمارا بجلی کا بل ہے۔ اسی طرح گومل یونیورسٹی کی ٹرانسپورٹ کے پیڑول کا بھی اتنا ہی بجٹ بنتا ہے۔ پروفیسرز اور سٹاف کی 13 کروڑ روپے تنخواہیں بنتی ہیں جو ہم ادا کر رہے ہیں۔ مسئلہ صرف اور صرف پینشنرز کا ہے جس میں گریڈ 1 سے 16 تک ہم پوری پینشن دے رہے ہیں، جبکہ گریڈ 17 سے اوپر کو اگر پیسے ہوتے ہیں تو پورے دیتے ہیں اور نہیں ہوتے تو ہاف پینشنز دیتے ہیں۔ ہم اسی طرح سارا نظام دیکھ رہے ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصے سے خیبر پختونخوا کے مختلف تعلیمی اداروں میں بھرتیوں کا تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ حال ہی میں گومل یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت یونیورسٹی میں متعدد سکیل کی درجنوں پوسٹیں مشتہر کی گئی ہیں۔ اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایکٹنگ وائس چانسلر کو بھرتیوں کا اختیار حاصل ہے یا یہ تمام بھرتیاں محض سیاسی اثر و رسوخ کے تحت کی جا رہی ہیں؟
ڈاکٹر شکیب اللہ، جو اس وقت بیک وقت تین یونیورسٹیوں کے ایکٹنگ وائس چانسلر ہیں، کی جانب سے گومل یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی ڈیرہ میں بھرتیوں کے بعد اب لکی مروت یونیورسٹی میں بھی مختلف سکیل کی پوسٹیں مشتہر کی گئی ہیں۔ یونیورسٹی کے قوانین اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ضوابط کے مطابق ایکٹنگ وائس چانسلر کے پاس نئی بھرتیاں کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ ایکٹنگ وائس چانسلر کا کردار یونیورسٹی کے روزمرہ معاملات کی دیکھ بھال اور معمولی نوعیت کے اقدامات تک محدود ہوتا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیاد ور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دوسری طرف عوامی اور سماجی حلقوں میں بھی اس بارے میں شدید تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے جب گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شکیب اللہ سے سوال پوچھا تو انہوں نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سے انہوں نے لکی مروت یونیورسٹی کا چارج سنبھالا ہے، اس سے قبل وہ دو سال تک بند رہی تھی۔ ڈاکٹر شکیب اللہ کے مطابق ان کی کوششوں کی بدولت اب یونیورسٹی دوبارہ کھل گئی ہے اور وہاں تعلیمی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں؛ پختونخوا کی جامعات ملازمت کے خواہشمند امیدواروں سے لاکھوں بٹور رہی ہیں
ڈاکٹر شکیب اللہ نے نوکریاں بیچنے کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ ثابت کر سکے کہ انہوں نے کسی سے نوکری کے بدلے میں پیسے لیے ہیں تو وہ اس کا نام سامنے لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پوسٹ کے لیے 900 امیدوار اپلائی کرتے ہیں جبکہ پوسٹیں صرف 25 سے 30 ہوتی ہیں، اس لیے جن امیدواروں کا انتخاب نہیں ہوتا وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیب اللہ نے مزید کہا کہ ان کا مشن ہے کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو تعلیمی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ یونیورسٹی ترقی کر سکے۔
وائس چانسلر سے جب ایگریکلچر یونیورسٹی کے حوالے سے سوال پوچھا کہ وہاں پی آر او کی سیٹ خالی ہے جس کا اشتہار دو سالوں سے چل رہا ہے لیکن ابھی تک وہ سیٹ کسی کو نہیں ملی تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ایڈ ریگولر نہیں تھا، ابھی ہم جس ایڈ پر کام کر رہے ہیں وہ ریگولر ہوگا۔ کچھ پوسٹیں ہوتی ہیں جن میں ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ کلاس فور مالی، چوکیدار، نیب قاصد، وغیرہ لیکن کچھ پوسٹیں ایسے ہوتی ہیں جن کے لیے ٹیسٹ لازمی ہوتا ہے جن میں کلیریکل سٹاف، پروفیسرز، آفیسرز، پی آر او وغیرہ، جن کی آپ بات کر رہے ہیں ان کے لیے ٹیسٹ ضروری ہوتا ہے تو اس کے لیے وقت درکار ہے۔ کچھ وقت کے بعد اس پر کام شروع ہو جائے گا۔
گومل یونیورسٹی خیبر پختونخوا کی ایک بڑی اور معتبر یونیورسٹی ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان کی 24 لاکھ آبادی کو تعلیمی خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ جنوبی وزیرستان، بھکر، دریا خان (پنجاب) اور بیرون ملک سے آنے والے طلبہ کے لیے بھی تعلیمی میدان میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وسیع زرعی رقبے، بہترین پروفیسرز اور متنوع طلبہ کی آبادی کے باوجود گومل یونیورسٹی مالی مسائل کا شکار ہے۔
گومل یونیورسٹی کو درپیش مسائل کے اگر ہم ممکنہ حل کی بات کریں تو ہمارے سامنے دو بہترین یونیورسٹیوں کی مثالیں موجود ہیں۔ گومل یونیورسٹی کو درپیش مالی خسارے اور چیلنجز پر قابو پانے کے لیے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، دہلی (IIT Delhi) اور بنارس ہندو یونیورسٹی (BHU) کی مثالیں اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔ IIT دہلی نے اپنے مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے انڈسٹری کے ساتھ مضبوط روابط قائم کیے، تحقیق و ترقی کے منصوبوں میں شراکت داری کی اور عالمی معیار کی تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف کورسز اور پروگرامز میں جدت لائے۔ اس کے علاوہ فنڈنگ کے مختلف ذرائع مثلاً حکومتی گرانٹس، ایلومنائی کی معاونت اور تحقیقاتی پروجیکٹس کے ذریعے مالی استحکام حاصل کیا۔ اسی طرح BHU نے مالی بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے تعلیمی معیار کو بلند کیا، بین الاقوامی طلبہ کو متوجہ کیا اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے مالی معاونت حاصل کی۔
گومل یونیورسٹی بھی ان مثالوں سے سیکھ کر اپنے مالی خسارے اور موجودہ چیلنجز پر قابو پا سکتی ہے۔ یونیورسٹی کے وسیع رقبے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تقریباً 11 ہزار کنال زرعی رقبے پر مختلف قسم کے پودے، درخت اور فصلیں لگا کر مالی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سٹی کیمپس کے فرنٹ پر سوئمنگ پول تعمیر کر کے اسے رینٹ پر دیا جا سکتا ہے، جس سے ماہانہ آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ فرنٹ کی زمین پر میرج لان بنا کر بھی کمائی کی جا سکتی ہے۔ یونیورسٹی کو سیکنڈ شفٹ میں بھی چلایا جا سکتا ہے تاکہ وہ طلبہ جو دن کے وقت کام کرتے ہیں، شام میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس کے علاوہ سٹی کیمپس میں کرکٹ، والی بال اور مختلف سپورٹس کے میدانوں کو رینٹ پر دے کر بھی آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے۔ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں مختلف پودوں اور درختوں پر ریسرچ کر کے انہیں کسانوں کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی کے سٹی کیمپس کے فرنٹ کی زمین کو ہوٹل اور ریسٹورنٹ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ اقدام ناصرف طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوں گے بلکہ شہر سے آنے والے لوگ بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ اس طرح یونیورسٹی کو اضافی آمدنی حاصل ہو گی جو مالی خسارے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔
اس کے علاوہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شکیب اللہ نے اشارہ دیا ہے کہ یونیورسٹی کا بجلی کا خرچ دو کروڑ روپے سالانہ ہے۔ ان اخراجات کو کم کرنے کے لیے مختلف ڈیپارٹمنٹس کو سولر سسٹم پر منتقل کرنا ایک بہترین حل ہو سکتا ہے۔ سولر سسٹم کا استعمال ناصرف بجلی کے بل کو کم کرے گا بلکہ یہ ماحول دوست بھی ہے اور طویل مدت میں یونیورسٹی کو مالی بچت فراہم کرے گا۔ ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے آڈیٹوریمز اور ہالز کو پرائیویٹ پروگرامز، ورکشاپس اور این جی اوز کی تقریبات کے لیے رینٹ پر دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بڑا موقع ہے جس سے یونیورسٹی اضافی آمدنی حاصل کر سکتی ہے۔
ان اقدامات کے ذریعے گومل یونیورسٹی ناصرف اپنے مالی خسارے پر قابو پا سکتی ہے بلکہ تعلیمی معیار میں بھی نمایاں بہتری لا سکتی ہے اور ایک خودمختار ادارے کے طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو یونیورسٹی کے مالی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔