فاٹا یونیورسٹی: وائس چانسلر کی سیٹ خالی ہونے کی وجہ سے درجنوں ملازمین چار ماہ کی تنخواہوں سے محروم

فاٹا یونیورسٹی: وائس چانسلر کی سیٹ خالی ہونے کی وجہ سے درجنوں ملازمین چار ماہ کی تنخواہوں سے محروم
خیبر پختونخوا کے درہ آدم خیل میں قائم فاٹا یونیورسٹی کے درجنوں ملازمین گذشتہ چار مہینے سے تنخواہوں سے محروم ہیں، جبکہ ملازمین نے پشاور پریس کلب سمیت کئی فورم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا مگر تاحال حکومتی سطح پر کوئی سنوائی نہیں ہوسکی۔

واضح رہے کہ فاٹا یونیورسٹی کا قیام سال 2016 میں وجود میں آیا اور اس وقت یونیورسٹی میں سات سو کے لگ بھگ طالب علم ہیں جبکہ ملازمین کی تعداد 85 کے لگ بھگ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں کل سات ڈیپارٹمنٹ فعال ہیں، جن میں زیادہ طالب علموں کی تعداد خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع سے ہے۔

نیا دور میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ لیکچرر سعید خلیل نے بتایا کہ گذشتہ چار مہینے سے نہ صرف یونیورسٹی کے 85 ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کا تعمیری کام بھی روکا ہوا ہے، کیونکہ وائس چانسلر کا عہدہ مارچ کے مہینے سے خالی پڑا ہے، جس کی وجہ سے فاٹا یونیورسٹی متاثر ہورہی ہے۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے یونیورسٹی ریگولیشنز کو خیبر پختونخوا یونیورسٹی ایکٹ میں تبدیل کیا تھا اور 4 مارچ 2020 کو خیبر پختونخوا کی تمام یونیورسٹیز پر لاگو کیا تھا، جس کے بعد وائس چانسلرز کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں ہوسکتا ہے۔

یونیورسٹی میں وائس چانسلر کا دورانیہ مکمل کرنے والے ڈاکٹر محمد طاہر شاہ ہیں، جنہوں نے اپنا دورانیہ مکمل کرنے سے دو مہینے پہلے ایکسٹینشن کے لئے درخواست دی تھی مگر وہ تاحال ہائر ایجوکیشن خیبر پختونخوا کے پاس زیر التوا ہے اور صوبائی حکومت تاحال کوئی دوسرا وائس چانسلر نہیں لگا سکی، جس کی وجہ سے نہ ملازمین کو تنخواہیں مل رہی ہیں اور نہ ہی تعمیرات کام ہورہا ہے، کیونکہ دونوں کے لئے وائس چانسلر کی اجازت اور دستخط ضروری ہوتے ہیں۔

یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر کے پاس کوئی قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ ان فائلوں پر دستخط کریں۔

نیا دور میڈیا کو سعید خلیل نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی کے ملازمین جس میں 25 کے لگ بھگ فیکلٹی سٹاف جبکہ دیگر نان فیکلٹی ممبران ہیں، جن میں سیکیورٹی گارڈز، مالی اور کلرک شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے سخت معاشی حالات میں پورے ملک میں پریشانی ہے مگر فاٹا یونیورسٹی کے ملازمین نے رمضان، عید الفطر بغیر تنخواہ کے گزاری جبکہ اب عید الضٰحی پر بھی تنخواہیں ملنا ناممکن ہے، کیونکہ ابھی تک وائس چانسلر تعینات نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ فاٹا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد طاہر شاہ ایک بار ایک سالہ ایکسٹینشن لے چکے ہیں اور اب دوبارہ ایکسٹینشن مانگ رہے ہیں۔

یونیورسٹی کے ایک فیکلٹی سٹاف ممبر نے بتایا کہ مسئلے میں وائس چانسلر اور حکومت دونوں ناکام نظر آرہے ہیں کیونکہ وائس چانسلرز جامعات کے اندر ایک مافیا سے کم نہیں ہوتے ہیں اور ہر وہ کوشش کرتے ہیں، جس سے ان کی ذات کو فائدہ ہو۔ انھوں نے مزید کہا کہ وائس چانسلر فاٹا یونیورسٹی بھی ون مین آرمی ہیں اور اپنے دورانیے میں انھوں نے نہ ہی رجسٹرار کے عہدے پر تعیناتی کی اور نہ دوسرے کسی اہم عہدے پر، جہاں ان کے جانے کے بعد کوئی افسر موجود ہو جو وائس چانسلر کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد تمام ذمہ داریاں ادا کرے۔ یہ اب وائس چانسلر کو پتہ ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ حکومت نے تو قانون متعارف کیا مگر اب اتنی اہلیت نہیں کہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدے پر تعیناتی کریں، کیونکہ صرف یہ نہیں صوبے کی دیگر چار یونیورسٹیز بھی بغیر وائس چانسلرز کے ذریعے چل رہی ہیں۔

نیا دور میڈیا کو فاٹا یونیورسٹی میں پڑھانے والی لیکچرر میمونہ حکیم نے بتایا کہ تاحال یونیورسٹی کی بلڈنگ تعمیر نہیں ہوئی اور نہ اساتذہ کے لئے کوئی ہاسٹل ہے جہاں وہ رہائش اختیار کریں تو زیادہ تر فیکلٹی اور نان فیکلٹی ملازمین چارسدہ، پشاور، مردان اور دیگر اضلاع سے روزانہ آتے ہیں اور یونیورسٹی میں فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی نے تاحال ٹرانسپورٹ کا کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا جس کی وجہ سے ملازمین پریشان ہیں کیونکہ ایک تو یہ تمام ملازمین دو دراز کے علاقوں سے اپنے خرچے پر یونیورسٹی آتے ہیں، جس پر ان کے مہینے کے پندرہ سے بیس ہزار روپے لگ جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب تنخواہوں کا یہ حال ہے جس کی وجہ سے فیکلٹی اور نان فیکلٹی ملازمین معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ سب سے زیادہ اثر نان فیکلٹی ملازمین پر ہوا ہے۔

میمونہ حکیم نے ذاتی تجربہ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرونا وائرس کے بعد مسلسل آن لائن کلاسز لے رہی ہیں مگر تاحال ان کو تنخواہ نہیں ملی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔