مجهے بے انتہا درد ہوئی،ان معصوم ماؤں کے چہروں کو دیکھ کر،بہنوں کے غمگین چہروں کو دیکھ کر بے بسی نظر آئی،بے حسی نظر آئی۔۔اس غم و درد کو سہنے والا میں تنہا نہیں تها بلکہ میرے غم میں احساس رکهنے والے سارے اشرف المخلوقات شریکِ غم تهے،ہر پاکستانی میرے غم میں برابر کا شریک تها۔
حسان قمبرانی کی ہمشیره حسیبہ قمبرانی اپنی دکھ بهری تقریر میں کہتی ہیں مجهے کتنی بار یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ میں اس ملک کی شہری ہوں،میرا لاپتہ بهائی بهی اسی ملک کا باشنده ہے،پچهلے ایک سال سے میرا بهائی لاپتہ ہے۔ میں نے اس کی بازیابی کے لیے ہر در کو کھٹکٹایا،صرف مجهے یقین دہانی ہی کی گئی مگر میں آج بهی انصاف کے لیے سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہوں۔
حسیبہ کی آواز میں صرف درد نہیں تهی ایک شکوه بهی تها،بے بسی بهی تهی،نا امیدی بهی۔
لاپتہ افراد کے لواحقین میں سے کچھ ایسے بهی ہیں جو پچهلے دس سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد پچهلے دس سال سے لاپتہ ہیں اور ان کی بچیاں سمی اور مہلب اُسی دن سے ہی سڑکوں پر ہیں۔
دس سال گزر گئے۔ امید آج بهی زنده ہے۔۔صرف اپنی والد کی بازیابی کی امید نہیں بلکہ ریاستی اداروں اور حکمرانوں سے آج بهی امیدیں وابستہ ہیں۔
مجهے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ حکومتی وزرا اور ایوانوں میں بیٹهے عوامی نمائنده ان کی امیدوں کو پاش پاش کر رہی ہیں۔ مجهے لگ نہیں رہا بلکہ لگ چکا ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے جبری گمشدگیوں سے متعلق ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تها۔ بدقسمتی سے وه بل اسمبلی سے پاس نہیں ہوا۔اُس دن اسمبلی میں موجود پی ٹی آئی کے ارکان نے داوڑ پر تنقید کرتے ہوئے اُسے فوج مخالف قرار دیا تها۔
عوامی نمائندوں کا یہ جملہ کہ لاپتہ کوئی بهی نہیں بلکہ یہ ملکی اداروں کے خلاف سازش ہے اور یہ لوگ خود افغانستان بهاگ گئے ہیں۔عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ محکمہِ داخلہ بلوچستان کا موقف بهی اس سے ملتی جلتی بات پر مبنی ہے۔
بیان دینا بہت آسان ہے مگر درد کو سمجهنا بہت مشکل ہے۔ درد کو سمجهنے کے لیے احساس درکار ہے جو بدقسمتی سے اشرافیہ کے دلوں میں دور دور تک بهی موجود نہیں۔
اگر واقعی ایسا ہے تو یہ نہتی مائیں،بہنیں کیوں احتجاج کر رہی ہیں؟ احتجاج کرتے کرتے بے ہوش کیوں ہو رہی ہیں،لانگ مارچ بهی کیوں کر چکی ہیں،کیمپ لگائے کیوں بیٹهے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات بهی ان وزراء و ارکانِ اسمبلی کسی کے پاس نہیں۔
اس کے برعکس لاپتہ افراد کمیشن بهی بنایا گیا ہے۔اعلی عدلیہ بهی اسے سنگین معاملہ قرار دے کر اس کی حل کے لیے حکم دیتی ہے۔اصل سوال تو یہ ہے کہ اس معاملے پر سب کا موقف الگ کیوں ہے۔
نا امیدی جب آتی ہے تب آتی ہے۔آج اگر مجهے نا امیدی اگرچہ نہیں بلکہ صدمہ ضرور پہنچ رہا ہے۔اُن لوگوں سے جو آج سرکاری محلات میں بیٹھ کر نہتی ماؤں کی گمشده بیٹوں کو دہشت گرد،قاتل کہہ کر پکار تے ہیں تو بے حسی، نا امیدی ہے،صدمہ نہیں۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔