حکومتی اتحادیوں کی ناراضگی، نیب کیسے حرکت میں نہ آئے؟

حکومتی اتحادیوں کی ناراضگی، نیب کیسے حرکت میں نہ آئے؟
1984 کا زمانہ تھا، ان دنوں میں آمریت کا قیدی تھا، میرے ایک قریبی تعلق دار عبدالفتاح جیلر بن کر خیرپور جیل میں تعینات ہوئے۔ ایک دن جیل کی بیرک کے باہر لان میں گپ شپ کر رہے تھے تو یاد آنے پر پوچھا کہ آپ نے ٹیچر کی ملازمت کیوں چھوڑی؟ میں اس کے لائق نہیں تھا اس لیے نوکری چھوڑ دی، انہوں نے برجستہ جواب دیا۔ کہنے لگا کہ میں ریاضی کی کلاس لے رہا تھا، ایک لڑکے کو حساب دیا۔ میری نظر میں ان کا جواب غلط تھا تو میں نے ان کی پٹائی کرنا شروع کر دی، وہ لڑکا مار بھی کھا رہا تھا اور اصرار کر رہا تھا کہ وہ صحیح ہیں۔

ایسے میں سر حسن کلاس میں آئے اور کہنے لگے کیوں قصائی بن کر بچے کو مار رہے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ حساب غلط کرتا ہے، ساتھ اصرار کرتا ہے کہ وہ صحیح ہے۔ میرے ساتھ فضول بحث کرتا ہے۔ سر حسن نے پیپر لے کر پڑھنے کے بعد کہا مسٹر فتاح آپ غلط ہیں، بچے کا جواب بلکل درست ہے۔ کیونکہ، سر حسن انگریزی اور ریاضی کے سینئر استاد تھے اس کو بھلا کیسے چیلنج کر سکتا۔ میں نے کلاس میں ہی بچے سے معذرت کی ہیڈ ماسٹر کے دفتر آیا اور اپنا استعفیٰ دیا، میں نے استعفیٰ کی وجہ بھی نالائقی لکھی تھی۔

آج مجھے یہ پرانا واقعہ چیئرمین نیب کی طرف سے سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کے خلاف نئے ریفرنس دائر کرنے کے فیصلے پر یاد آیا۔ لطیفہ یہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو چیئرمین نیب بنانے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نیب کے قیدی ہیں۔ یہ تماشہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک ہی دن ایک ہی وقت چیئرمین نیب وزیراعظم نیازی کے نورنظر زلفی بخاری کو ایک سیکنڈ بھی حوالات میں رکھنے، کوئی سوال جواب کیے، بغیر کلین چٹ دے دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک سابق صدر اور دو وزرائے اعظم کے ملزم ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ وقت کا جبر یا حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟ احتساب کرنے کا ٹھیکہ ایسے محتسب کو دیا ہے جس پر جسمانی ہراساں کرنے کا الزام ہے، یہ قابل تفتیش ہی نہیں قابل تشویش بات ہے کہ دوسروں کا احتساب کرنے والے کا ذاتی کردار سوالیہ نشان ہے۔

پنجاب کے ایک استاد پر جسمانی ہراسانی کا الزام لگا تو انہوں نے ملازمت ہی نہیں خودکشی کر کے دنیا ہی چھوڑی دی۔ جب تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی تو وہ استاد معصوم قرار پائے۔ مگر، حیران کن بات یہ ہے کہ چیئرمین نیب کا حوصلہ واقعی قابل داد ہے کہ اپنے وجود میں بدکرداری کا داغ سمائے آج بھی صاحب احتساب ہیں۔ وہ نیازی سرکار کے مخالفین پر گرجتے بھی ہیں، برستے بھی ہیں اور تو اور میڈیا کیمروں سے نظریں ملانے کا بھی غضب کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ایسی کی تیسی غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کی جو کہتے ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جب سیاسی مصیبت کے شکار ہوتے ہیں تو نیب حرکت میں آتا ہے۔

نیب کیسے حرکت میں نہ آئے؟ پرکشش مراعات حکومت دیتی ہے اور حکومت خان کی ہے۔ ایسے وقت جب سلیکٹڈ وزیراعظم کے سب اتحادی ان کی وعدہ خلافیوں سے مایوس ہو کر ان سے راستے الگ کرنے کا سوچنے لگیں تو نیب تو متحرک ہو گا۔