قرُ العین حیدر نے اردو افسانہ نگاری کے موضوع، اسلوب، زبان و بیان، ماحول، منظر نگاری اور فکر و خیال کو ایک نیا آھنگ دیا۔ قرُ العین حیدر کے ادبی اسلوب کی تشکیل میں ان کی فکری تربیت، طرزِاحساس، خاندانی پسِ منظر، تہذیبی ورثہ اور ان کا زندگی کی طرف عمومی مثبت رجحان، رویہ، ردِعمل اور نقطہ نظر کا خاصا دخل ہے چونکہ اُن کے اسلوب کو اُن کی انفرادیت سے الگ نہیں کیا جاسکتا اسی وجہ سے اُن کے اسلوب میں ٹھہراؤ بھی ہے اور تغیر بھی۔
وہ اپنے عہد کی عصری حسّیت سے بخوبی واقف تھیں۔ ان کے اسلوب میں دریا کی روانی ہے جس کی لہریں چاند کی محبت میں سرِراہ گرفتار تو ہیں لیکن ان کی منزلِ محبت چاند نہیں کہکشائیں ہیں۔ ان کے اسلوب کا انحصار کچھ حد تک معاشی، سیاسی اور جغرافیائی حالات پر بھی ہے اور ان معروضی حالات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان کے اسلوب کے کچھ رنگ بھی کروٹ لیتے ہیں۔
قرۃ العین کے کرداروں میں اُلجھن اور احساسِ زیاں کا احساس شدت سے پایا جاتا ہے۔ اُن کے کردار بے حوصلگی، خوف اور فرار کا شکار نظر آتے ہیں۔ اُن کے اکثر کردار حالات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور وہ حالات کا رخ موڑنے کا حوصلا نہیں رکھتے۔ جیسا کہ آخرِشب کے ہم سفر میں دیپالی کہتی ہے کہ: ہم لوگوں نے، ہماری جنریشن نے کیا کیا؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ ہچ ہائیکر تھے۔ راستے کے کنارے انگوٹھے دکھا رہے تھے۔ ایک کار رُکی، اس نے لفٹ دے کر ماسکو پہنچا دیا، دوسری کار رُکی اُس نے واشنگٹن، کچھ لوگ اونٹ پر بیٹھ کر مکہ مدینہ واپس چلے گئے، کچھ بیل گاڑی پر بیٹھ کر بنارس۔ میرے لیے جو کار رُکی وہ تو آگے جاکر فیل ہوگئی۔
آگ کا دریا میں قرۃ العین حیدر نے تکنیک اور کردار نگاری میں نئے تجربات کیے ہیں۔ آگ کا دریا کے کردار زیادہ تر علامتی حیثیت رکھتے ہیں اور ہندوستانی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف روپ لے کر آتے ہیں اور اپنے عہد کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس ناول کے تین مرکزی کردار گوتم، کمال اور چمپا علامتی پیکر رکھتے ہیں اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں برِصغیر کی تاریخی اور تہذیبی کڑیوں کو تسلسل عطا کرتے اور قاری کے ذہن میں اپنا منفرد اثر چھوڑتے ہیں۔ گوتم نیلمبر ابدی انسان کی علامت ہے جس کی روح انسان اور کائنات کے رموز کو سمجھنے کے لیے مظطرب اور بے چین ہے۔ زمانے بھر کی خاک چھاننے کے بعد بھی اُسے شکست خوردگی ہی ہاتھ آئی۔ روح کو سکون نہیں ملتا اور با لآخر شکست خوردہ انسان کی علامت بن جاتا ہے۔
اور اس نے دیکھا کہ چاروں طرف اور خلا ہے اور اس میں ہمیشہ کی طرح وہ تنہا موجود ہے۔ دنیا کا ابدی و ازلی انسان، تھکا ہوا شکست خوردہ۔
معروف تجزیہ نگار اور لکھاری رضا رومی نے اپنی کتاب Being Pakistan, Society, Culture and Arts میں قرۃ العین حیدر پراپنے مفصل مضمون جس کا عنوان ہے:
دوہری نسبت کا معمہ : قرۃ العین حیدر کی پاکستان میں باعثِ ثبات شہرت (The Enigma of Dual Belonging: Quratulain Hyder’s Enduring Popularity in Pakistan) میں قرۃ العین حیدر کے ادبی ورثے اور پاکستان میں اردو پڑھنے والے قارئین میں اُن کی بے پناہ مقبولیت کے تین عناصر کی نشاندہی کی ہے اور بہت خوب کی ہے:
اوّل : قرۃ العین حیدر کے تخلیقی عمل اور طرز اظہار میں سماجی تاریخ پر ان کے بے پناہ عبور نے مستقبل میں آنے والے تاریخ نویسوں اور لکھاریوں کے لیے ایک مظبوط بنیاد فراہم کی۔ وہ اپنے مخصوص طرزِ اظہار سے اُن تہذیبی تصورات اور خطوط کو کھنگال رہی تھیں جو جغرافیائی سرحدوں، مذاہب، اور قومی تشخص کے قید سے آزاد ہیں۔ وہ اُن حکایتوں اور بیانیئوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو ہمارے تاریخی ادوار کا مشترکہ حصہ رہے اور جنہیں ہماری مشترکہ تاریخی تسلسل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے محدود قومی شناختیں شہریت کا تو احاطہ کر سکتی ہیں لیکن تہذیبی اور تاریخی تسلسل کو انفرادی اور انسانی سطح پر نہ تو الگ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بے محل و بے متعلق۔
اسی وجہ سے قرۃ العین جس زاویے سے تاریخ کو پیش کرتی ہیں اس میں ایک عام فرد، گروہ اور کردار بھی حاکموں کے کرداروں کے شانہ بہ شانہ اور پیچ درپیچ نمایاں رہتا ہے اور تاریخ کے بے دریغ بھاؤ میں ڈوب کرغرق نہیں ہوجاتا یا محض تاریخ کے حاشیوں پر اونگھتا نہیں رہتا۔
دوئم: قرۃ العین حیدر مابعد نوآبادیات کے صدمے کو ہجرت تک محدود نہیں رکھتیں۔ قرۃ العین حیدر ہندستان کی تقسیم کو ادبی نقطِ نگاہ سے کسی اور سطح پر دیکھتی ہیں۔ یہ سطح فسادات کی بربریت، ہنگامہ آرائی اور الزام تراشی سے ماورا ہے۔ قرۃ العین حیدر کا تخلیقی بیانیہ ۱۹۷۴ کے سنگِ میل کو جنوبی ایشیا کے تاریخی تسلسل میں دیکھتا ہے جو مسلسل سفر اور حجرت سے لبریز ہے۔ اس کے علاوہ ۱۹۷۴ کا سانحہ حیدر کے تخیلی خاکے میں پرانی سماجی ترتیب کی شکست و ریخط اور ابھرتی دنیا کے نئے اقدار کا جنم تھا جس میں دولت اور اسراف نئی تہذیبی اقدار کا پیش خیمہ تھے۔
اس طرح قرۃ العین حیدر ابھرتی ادبی فضا کو اسرافیت پسند عالمگیریت کے ساتھ جوڑ کر اُس کا تجزیہ کر رہیں تھیں۔
سوئم: ہندوستان میں مسلم تہذیب کے تناظر میں قرۃ العین حیدر مسلمانوں کی تاریخ کی خود ساختہ اُلجھنوں اور تضادات کا جائزہ لیتی ہیں۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی تہذیبی روایات اور اخلاقیات جامع ہونی چاہیں نہ کہ گروہی اور فرقہ روانہ کیونکہ ایسا کرنے سے تاریخی تسلسل کی نفی ہوتی ہے اور انتشار پر مبنی نتائج نکلتے ہیں۔ اس لیے قرۃ العین حیدر فرقہ ورانہ مباحث کو اُلٹ کر ان کو نا معقول قرار دیتی ہیں اور اس ضمن میں متبادل ذرائع عوامی تاریخ سے پیش کرتی ہیں جیسا کہ اُنہوں نے اپنے ناول آگ کا دریا میں بھگتی تحریک اور بیسوی صدی کی صوفی روایت کا ذکر گردشِ رنگِ چمن میں کیا ہے۔
قرۃ العین حیدرنے اپنے افسانوں اور کُتب کے عنوانات رکھنے کے سلسلے میں قدیم کلاسیکل شاعری اور جدید شاعری یا پھر انگریزی سانس سے کسبِ فیض کیا۔ وہ اپنے کسی مضمون یا افسانے کا عنوان یا کتاب کا نام ایسے ہی بے سمجھے بوجھے نہیں رکھتیں۔ ان کے ہر عنوان یا کتاب کے نام میں کوئی تہذیبی اور تاریخی معنویت ہوا کرتی ہے جس سے سماج، تاریخ، تہذیب ور انسان کے کسی نہ کسی پہلو اور دور کے در سا ہوتے ہیں۔
قرۃ العین حیدر نے اپنی زندگی میں بہت سی دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں ان کی کئی دستاویزی فلموں کو ایوارڈ ملے۔ وہ ادبی ایوارڈ سے قبل دستاویزی فلم سازی پر ایوارڈ پا چکی تھیں۔ قرۃ العین حیدر ۲۱ اگست ۲۰۰۷ کو اس دارِفانی سے کوچ کرگئیں وہ یوپی کے کیلاش ہاسپٹل میں زیرِعلاج تھیں۔