افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا، کیاوفاقی دارلحکومت غیر محفوظ شہر بنتا جارہا ہے؟

افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا، کیاوفاقی دارلحکومت غیر محفوظ شہر بنتا جارہا ہے؟
اسلام آباد: گزشتہ روز وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر نجیب اللہ علی خیل کی بیٹی سلسلہ علی خیل کی مبینہ اغوا  ملکی اور بین القوامی میڈیا کی نظروں میں ہے اور سوشل میڈیا پر بھی صارفین کے درمیان ایک جنگ کا ماحول ہے۔ اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ یہ عالمی سازش اور راء کا ایجنڈا ہے

شیخ رشید کا کہنا تھاکہ افغان سفیر کی بیٹی نے پہلےکہا کہ موبائل فون لے گئے پھر فون دے دیا لیکن ڈیٹا ڈیلیٹ کرکے دیا، سی سی ٹی وی ویڈیو دیکھی ہے جس میں 2 نہیں تین ٹیکسیاں تھیں، لڑکی نے دامن کوہ سے تیسری ٹیکسی لی لیکن گھر نہیں گئی۔

انہوں نے کہا کہ تین سی سی ٹی وی ویڈیو ہیں چوتھی ویڈیو کی تلاش ہے، لڑکی گھر سے پیدل نکلی کھڈا مارکیٹ سے آکر ٹیکسی لی، ویڈیو ہے جس کے مطابق لڑکی کھڈامارکیٹ سے ٹیکسی میں دامن کوہ گئی اور ویڈیوکے مطابق لڑکی دامن کوہ سےراولپنڈی گئی جہاں سے لڑکی نےتیسری ٹیکسی لی۔

دوسری جانب افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان میں تعینات افغان سفیر اور دیگر سفارتی عملے کو ملک واپس بلالیا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان حکومت کی جانب سے اپنے سفیر کو اچانک واپس بلالینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایک بیان میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے اپنا سفیر اچانک بلالینے پر تشویش ہوئی،افغانستان کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، افغان سفیر یہاں رہیں اور تحقیقات میں تعاون کریں۔

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کے درمیان ایک نئی جنگ شروع ہوئی ہے اور حکومت کے حامی سوشل میڈیا صارفین اور صحافی یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ افغانستان کی سفیر کی بیٹی نے سفارتی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ایک عام ٹیکسی میں کیوں سفر  کیا اور یہ واقع پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے جبکہ دوسری جانب صحافی اور تنقیدی صارفین اسلام آباد میں سیکیورٹی کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب صحافیوں کو دن دیہاڑے اسلام آباد سے اغوا کیا جاتا ہے تو اُن کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سال بھر نہیں ملتی جبکہ افغان سفیر کی بیٹی کی ویڈیو فوٹیجز ایک دم سامنے آگئی۔

وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں جرائم میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور دن دیہاڑے لوگوں سے موبائل اور دیگر قیمتی اشیاء  چھین لئے جاتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ گھروں پر ڈاکے پڑنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اسلام آباد میں کرائم رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں امن و امان اور ڈکیتیوں کے اتنے واقعات کبھی سامنے نہیں آئے اور وفاقی پولیس اور ضلعی انتظامیہ ایک پرامن ماحول فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔

اسلام آباد میں گزشتہ پندرہ سال سے کرائم رپورٹنگ کررنے والے تحقیقاتی صحافی راجہ کاشف اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں پہلے ایسے واقعات کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا مگر چونکہ شہر کی آبادی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور پولیس کے پاس کوئی لائحہ عمل موجود نہیں کہ ان واقعات کو کیسے کنٹرول کرنا ہے اور شہریوں کو پرامن ماحول کیسے دینا ہے اس لئے ان کاروائیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ راجہ کاشف کہتے ہیں اسلام آباد پولیس کی جانب سے ہر سال اعداد و شمار جاری ہوتے ہیں کہ جرائم کی شرح میں کمی ہوئی ہے لیکن جان بوجھ کر وہ مختلف واقعات کے ایف آئی ار درج نہیں کرتے تاکہ سالانہ رپورٹ اچھی بنے۔ انھوں نے کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی کا معاملہ ابھی تحقیقاتی مراحل میں ہے اور تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن اسلام آباد کا سیف سیٹی پراجیکٹ کبھی مجرموں کو پکڑنے کے لئے کارآمد ثابت نہیں ہوا۔

نیا دور میڈیا کو ایک حکومتی وزیر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس واقعے کی تحقیقات چل رہی ہے لیکن عارضی طور پر اس واقعے نے پاکستان کو سفارتی محاذ پر شرمندگی سے دوچار کیا کیونکہ یہ واقعہ کسی دور دراز کے علاقے میں نہیں بلکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ہوا ہے اور اس واقعے نے بہت سارے سوال کھڑے کئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہو لیکن تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

نیا دور میڈیا نے اسلام آباد کے سفارت خانے کے ترجمان حضرت ولی ہوتک سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر سوال نامہ دیکھنے کے باوجود انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا.

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔