خان صاحب نے اپنی کارکردگی کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر خوبصورتی سے خود کو دوبارہ لانچ کردیا

خان صاحب نے اپنی کارکردگی کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر خوبصورتی سے خود کو دوبارہ لانچ کردیا
سب سے پہلے میں تحریک انصاف کے تمام ہمدردوں اور کارکنوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے الیکشن جیتنے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ فتح اور شکست کھیل کا حصہ ہوتے ہے، لیکن کھیل جاری رہنا چاہیے۔

کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں کبھی کی راتیں۔ اس لئے جہاں فتح کی خوشی مناتے ہیں وہاں شکست کا سوگ بھی منائیں، یہی زندہ دلی ہے کیونکہ دھاندلی بھی مقابلہ کرنے والے کے لئے ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا پر دو بیانیے ہیں کہ تحریک انصاف نے جیت کر کوئی کمال نہیں کیا، یہ تو وہی نشستیں ہیں جہاں آزاد امیدوار کھڑے ہوئے تھے جو بعد میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ دروغ بگردن راوی تمام سیاسی پرندوں کو پی ٹی آئی کی منڈیر تک لانے کا سہرا جہانگیر خان ترین اور ان کے جہاز کو جاتا ہے۔

فی الوقت کی حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب اپنی کارکردگی کی بجائے، خودداری، امریکی سازش، مہنگائی اور مقتدر حلقہ مخالف بیانیہ لے کر الیکشن میں اترے تھے اور اس بیانیہ اور چورن کو وہ عوام الناس میں بیچنے میں ناصرف کامیاب ہوئے ہیں، بلکہ ان کی مارکیٹنگ کی حکمت عملی اتنی اچھی تھی کہ جن کاندھے پر چڑھ کر وہ حکومت میں آئے تھے انھیں کے خلاف باتیں کرکے انھوں نے نہایت کامیابی سے اپنی نالائقی اور کارکردگی کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ آج موضوع بحث پچھلے ساڑھے تین سال کی کارکردگی نہیں بلکہ مقتدر (اسٹیبلشمنٹ) کا کردار ہے۔ جسے کبھی میر جعفر، کبھی میر صادق، کبھی مسٹر ایکس کبھی مسٹر وائی سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔

خان صاحب کا مکمل بیانیہ یہ تھا کہ مقتدر لوگ غیر جانبدار (نیوٹرل) کیوں ہوئے یعنی وہ اسی طرح ان کی حمایت جاری رکھتے جیسے 2014ء سے جاری تھی۔ چاہے اس دوران سردار عثمان بزدار پنجاب میں گورننس کا بھرکس نکال دیتے اور معیشت کا جنازہ تو خان صاحب خود ہی نکال چکے تھے۔ نیز انھوں نے عوام الناس کے دل میں یہ راسخ کروا دیا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ وہ نہیں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا جڑواں شہر راولپنڈی ہے۔ اس لئے انھیں اگلی حکومت کے لئے دو تہائی اکثریت دی جائے۔ یہ نتائج کسی حد تک حیران کن ہیں کہ پنجاب جیسے صوبہ سے مقتدر حلقوں کے خلاف آواز بلند ہونا شروع ہو گئی حالانکہ ڈھاک کے تین پات وہی رہنے ہیں۔

چند مزید اہم باتیں، الیکشن نے واضح کی ہیں جن میں الیکٹیبلز کی سیاست کا زور کسی حد تک ختم ہوا ہے۔ عوام الناس نے انھیں مسترد کرکے یہ باور کروایا ہے کہ ووٹ عوامی امانت ہے اس لئے خیانت سے گریز کریں۔ انتخابی نمائندگان کی سیاست پر جتنی کاری ضرب لگے گی اتنا طاقت میں مقتدر حلقوں کا اثر ختم ہوگا۔ نیز لوگوں میں نظریاتی سیاست پروان چڑھے گی جسے مقتدر حلقوں نے ختم کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔

خان صاحب نے ضمنی انتخابات تک تو انتخابات کی سائنس سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر عام انتخابات میں اس مشق کو دہرانے میں کامیاب ہو سکیں گے کہ نہیں اس پر تبصرہ فی الوقت ممکن نہیں ہے۔

پنجاب میں مقتدر حلقوں کے خلاف ووٹ پڑنا اور پاکستان تحریک انصاف کا اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر الیکشن لڑنا پاکستانی جمہوریت کے لئے خوش آئند ہے۔

ریاست وملک کی بقا اسی میں ہے کہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں اور الیکشن کا نظام بھی صاف اور شفاف ہو نیز مقتدر حلقہ (اسٹیبلشمنٹ) اس کھیل سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو، اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو عمرانی معاہدہ کرنا ہوگا اور من وعن اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ اول حکومت جس کی بھی ہوگی اسے پانچ سال کی مدت مکمل کرنے دی جائے گی۔ دوم ہر صورت میں بلدیاتی نظام اور انتخابات کی ترویج کی جائے گی تاکہ جمہوری لوگوں کی ایک باقاعدہ پنیری لگائی جا سکے جو عوام الناس میں سے ہو، یہ ارتقائی عمل ہوگا جس سے کم ازکم ملک میں جمہوریت کی بیل شاید منڈیر چڑھ جائے۔

مسلم لیگ ن کے لئے اس شکست میں چند واضح نشانیاں ہیں اگر وہ نوشتہ دیوار دیکھنا اور پڑھنا چاہیں۔ مسلم لیگ ن کو موروثی سیاست سے باہر نکلنا پڑے گا۔ شہباز شریف کے بیانیہ سے بالاخر جان چھڑوانا پڑے گی، یعنی آئین وقانون کی بالا دستی کا علم بلند کرنا پڑے گا مفاہمت کا راستہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ اپنے دیرینہ کارکنان کو صرف نظر کرکے صرف انتخابی نمائندگان کو اہمیت دیں گے تو آپ عام انتخابات میں بھی ذلیل ورسوا ہوں گے۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے یہ وہ نسل ہے جو آپ فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا سے تصدیق کے بغیر کسی بھی اطلاع کو وائرل کر دیتی ہے۔ وہ بات درست یا غلط جو بھی ہو اس کا تعین تو بعد میں ہوگا۔ آگ آپ کے گھر کی دہلیز تک پہنچ جائے گی سدباب کا موقع بعد میں ملے گا۔

ملک میں جتنا مرضی انقلاب آ جائے، اس کو بالاخر گیٹ نمبر 4 پر ہی حلالہ کے لئے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں لیکن ایک بات طے ہے ہمارے سبھی سیاستدان مقتدر حلقوں کے آلہ کار ہی ہیں اور رہیں گے کیونکہ ان کے دانت بھی ہاتھی کے ہیں کھانے کے اور اور دکھانے کے اور۔

ضمنی انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا، نیز اب سیاسی حدت میں بھی اضافہ ہوگا اور جس طرح کی ہوا چل رہی ہے، خان صاحب چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ جو اب تک بھی سمجھ نہیں پا رہے ان کے لئے عرض ہے خان صاحب کو نکالا ہی لانے کے لئے گیا تھا، بس مسلم لیگ نون نے نجانے کس آس پر پھندا اپنے گلے ڈالا یا انھیں سمندر میں کودنے کا مشورہ کس نے دیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ منصوبہ ( پاکستان تحریک انصاف) جس بھی عقلمند و سمجھدار آدمی کا ہے وہ اپنے پتے نہایت خوبصورتی سے کھیل رہا ہے۔

ساڑھے تین سال کا ملبہ بھی کسی کے سر پر ڈلوایا ہے اور خان صاحب اور اپنے آپ کو بھی نہایت خوبصورتی سے صاف وشفاف انداز میں دوبارہ سے مارکیٹ میں لانچ کیا ہے، خود کی غیر جانبداری بھی ثابت ہوگئی اور خان صاحب انقلابی رہنما بھی۔

میں یہ بات پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ''مولے کو مولا نہ مارے تو مولا نہیں مرتا''، سیاسی جماعتیں اپنے وزن سے فنا ہونی چاہیں ورنہ وہ زندہ وجاوید رہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہمارے سامنے اس کی مثال ہے، جسے ضیاء الحق کی آمریت ختم نہ کرسکی لیکن زرداری صاحب کی پانچ سالہ حکومت نے ختم کر دیا، پارٹی 4 صوبوں سے سندھ میں مقید ہوگئی۔

جمہور وجمہوریت کا سفر بہرحال ابھی بھی طویل و کٹھن ہے، اس لئے سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے، کیونکہ عسکریت پسندی سے قبضہ چھڑوانا ناممکن ہے۔ اگر عوام حقیقت میں گھبرا گئی تو اشرافیہ کے دن پورے ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ملک کیونکہ اسلامی وجمہوری تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے اس لئے تجربات جاری رہیں گے۔