اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو ان ہی کی پارٹی کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ عمران فاروق کو ستمبر 2010 میں لندن میں ان کے گھر کے باہر چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
جج شاہ رخ ارجمند کے مطابق تین افراد کے خلاف چلائے گئے اس مقدمے میں ثابت ہو چکا ہے کہ اس قتل کا حکم الطاف حسین نے ہی دیا تھا۔عدالت نے تین افراد، شمیم خالد سید محسن علی اور معظم علی، پر 20 لاکھ روپے جرمانہ کیا اور ان تینوں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اور تینوں کو پابند کیا کہ وہ دس، دس لاکھ روپے مقتول کے ورثا کو بھی دیں گے۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کی حکومتوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مفرور ملزمان ( ایم کیو ایم بانی الطاف حسین، افتخار حسین، محمد انور اور کاشف کامران) کو ڈھونڈیں گی، اور انہیں گرفتار کر کے جلد از جلد اس عدالت کے سامنے پیش کریں گی۔
عدالت نے لکھا ہے کہ لندن میں موجود دو سینیئر پارٹی قائدین نے الطاف حسین کے احکامات پاکستان میں متعلقہ افراد تک پہنچائے۔ عدالت کے مطابق ملزم معظم علی جو کہ ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو میں موجود ایک سینیئر رہنما تھے، اور ملزم خالد شمیم نے ملزم سید محسن علی اور کاشف خان کامران کو عمران فاروق کے قتل کے لئے انگیج کیا۔
’’دونوں قاتلوں کو مکمل طور پر سہولیات فراہم کی گئیں جو لندن محض عمران فاروق کو قتل کرنے کی غرض سے گئے اور ایک پہلے سے تیار شدہ سازش کے تحت ایک معصوم آدمی کو قتل کیا۔
’’یہ قتل معاونین اور اس کام کو تکمیل تک پہنچانے والوں نے عوام کو خوفزدہ کرنے اور ایم کیو ایم ورکرز کو خاص طور پر ڈرانے کے لئے کیا تاکہ مستقبل میں الطاف حسین کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی جرأت نہ کر سکے‘‘۔
فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ عمران فاروق کے قتل کے پیچھے مقصد اس حقیقت سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ پارٹی میں ایک اہم مقام رکھتے تھے اور ان کی پارٹی کے لئے خدمات تھیں۔
ڈاکٹر عمران فاروق کے لکھے ہوئے نوٹس جو انہوں نے 2008 میں لکھے اور ان پر اپنے دستخط بھی کیے، کے مطابق انہیں ڈر تھا کہ انہیں ایم کیو ایم میں نمبر ون بننے کی کوشش کرنے کے الزام پر قتل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اس خدشے کی تصدیق خالد شمیم کے اقبالی بیان سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق الطاف حسین نے ایک بار ان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں کوئی ان کا نمبر دو، تین یا ڈیڑھ بھی نہیں ہو سکتا، نمبر ون کی تو بات ہی الگ ہے‘‘ْ۔
یہ فیصلہ دو ممالک کی مشترکہ تحقیقات کے نتیجے میں آیا
فیصلے میں اس مقدمے کو تاریخی نوعیت کا مقدمہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس میں دو ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ دستاویزی شواہد کے تبادلے پر اتفاق کیا۔
پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ برطانیہ اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ تھا جن کی کوشش یہی تھی کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں انصاف ہو سکے۔
برطانوی ہائی کمیشن نے مزید کہا کہ میٹروپولیٹس پولیس نے شواہد پاکستانی تفتیش وکلا کو دیے تاکہ وہ سید محسن علی کے خلاف مقدمے کو کامیاب بنانے میں مدد دے سکیں۔
مقدمے میں ٹرائل 22 مئی کو مکمل کر لیا گیا تھا۔ یہ کیس گذشتہ ایک سال سے شواہد کے حصول میں مشکلات کے باعث رکا ہوا تھا۔
2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت کو حکم دیا تھا کہ وہ اس طویل عرصے سے جاری کیس کو اکتوبر 2018 تک مکمل کرے۔ تاہم، وفاقی تحقیقاتی ادارے کے وکلا نے بارہا عدالت سے ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کی کیونکہ برطانوی حکومت شواہد پاکستانی حکومت کو دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ ملزمان پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں سزائے موت سنا دی جائے گی۔
مقدمے میں تفتیش کے دوران دو ملزمان، شمیم اور محسن علی، نے مجسٹریٹ کے سامنے اقبالی بیانات ریکارڈ کروائے تھے کہ ڈاکٹر فاروق کو اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ وہ ایم کیو ایم لیڈرشپ کے خلاف ایک خطرہ بن چکا تھا۔
تاہم، بعد ازاں انہوں نے اپنے اقبالی بیانات واپس لیتے ہوئے کہا تھا کہ بیانات ان سے زبردستی لیے گئے۔
عمران فاروق کون تھے؟
ڈاکٹر عمران فاروق آل پاکستان مہاجر طلبہ تحریک (APMSO) کے ایک کلیدی رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے جو کہ بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہو گئی تھی۔
1980 کے اوائل میں APMSO کو ایک مکمل سیاسی جماعت میں تبدیل کر دیا گیا جو کہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں بسنے والے اردو سپیکنگ پاکستانیوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ رکھتی تھی۔
الطاف حسین اس کے قائد تھے جب کہ چشمہ لگائے ڈاکٹر عمران فاروق کو جماعت کا دماغ سمجھا جاتا تھا اور انہیں ان کی انہی صلاحیتوں کے باعث پارٹی کا سیکرٹری جنرل بھی بنایا گیا تھا۔
جب 1992 کے ملٹری آپریشن کے دوران الطاف حسین نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی تو عمران فاروق کراچی ہی میں انڈر گراؤنڈ ہو گئے اور پارٹی کو چلاتے رہے۔ اگرچہ ان کو اس وقت کی حکومت نے مفرور قرار دیا تھا لیکن وہ حکام کو چکمہ دیتے رہے اور کراچی ہی میں موجود رہ کر پارٹی کو چلاتے رہے۔
بالآخر وہ ایک دو نمبر پاسپورٹ کے ذریعے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور لندن پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست کر دی۔
ابتدائی سالوں میں وہ الطاف حسین کے ساتھ لندن سے پارٹی کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ تاہم، چند سالوں کے بعد ان کے آپسی اختلافات سامنے آنے لگے جس کے بعد عمران فاروق نے خود کو پارٹی سے بالکل علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد سے وہ سیاست سے دوری اختیار کیے ہوئے لندن میں زندگی گزار رہے تھے۔
2010 میں انہیں ان کے گھر کے باہر چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی الطاف حسین پر انگلیاں اٹھی تھیں۔ الطاف حسین کی شدید رنج کے عالم میں ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں پارٹی رہنما ان کو آنسو صاف کر لینے کی التجائیں کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔ لیکن 2015 میں الطاف حسین کو بھی عمران فاروق قتل کیس میں نامزد کر دیا گیا۔
الطاف حسین کے خلاف لندن میں دہشتگردی کا مقدمہ قائم ہے جو کہ 22 اگست 2016 کو پاکستان میں اپنے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے انہیں تشدد پر ابھارنے کی بنیاد پر بنایا گیا۔ اکتوبر 2019 میں انہیں اس مقدمے میں بھی نامزد کر دیا گیا تھا۔