روحیل اصغر اور علی نواز اعوان نے ایک دوسرے کے خاندان کی عورتوں کے خلاف جو بدزبانی کی ہے وہ پاکستانی معاشرے میں موجود بہت سے لوگوں کے دوہرے معیار کی عکاسی کرتی ہے۔یہ لوگ ایک طرف باتوں کی حد تک عورت کی عزت کرتے ہیں لیکن جیسے ہی کسی کو گالی نکالنی ہو تو فورا اپنے مخالف کے بجائے اسکے خاندان کی عورتوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ یہی رویہ آگے جا کر ونی، کاروکاری اور غیرت کے نام پر اپنی عورتوں پر تشدد اور قتل اور دوسروں کی عورتوں کے اغوا،دست درازی اور زیادتی تک جا پہنچتا ہے۔ پھر جب عورتیں اپنے حقوق کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف محاذ بنایا جاتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے گھر کی عورتوں کو بسوں اور ویگنوں میں سفر کروانے سے پریشان رہتے ہیں اور شام کو انہیں جلدی جلدی گھر واپس آنے کو کہتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کی مذہب، انسانی حقوق اور اخلاقیات پر مبنی باتیں صرف سوشل میڈیا اور TV تک محدود ہیں۔ عورتوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس، ان کے خلاف ہراسانی اور زیادتی کے واقعات ہمارے معاشرے کی ایک زندہ حقیقت ہیں۔
تعلیم اور روزگار میں مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق اور برابری کے مواقع میں ہی پاکستانی عورتوں کی ترقی اور ان کا معاشی اور سماجی تحفظ چھپا ہے۔ جب بھی کسی ملک میں یہ عمل شروع ہو گا تو پھر معاشرہ جتنا مرضی وقت کے پہیے کو روکنے کی کوشش کرے مگر پھر وہ اس انسانی ترقی، آزادی اور خودمختاری کے سفر کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ عورتوں کے ایک بڑی تعداد میں تعلیم اور روزگار کے عمل میں شامل ہونے سے انہیں معاشی خودانحصاری اور اپنی ذات کے حوالے سے فیصلے کرنے کی طاقت ملے گی، اس سےقطع نظر کہ وہ کس مذہب، فرقے، قوم، علاقے، ذات یا برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔
عورت کی تعلیم اور روزگار میں اس کی معاشی خودانحصاری کے علاوہ بطور انسان اس کی سماجی آزادی بھی چھپی ہے اور یہ اس کا ایک لازمی نتیجہ ہو گا جس کے لیے ہمیں بطور معاشرہ تیار رہنا چاہیے چاہے کوئی اس تبدیلی کو پسند کرے یا نہ کرے۔ اس کے بعد ہمارے صدیوں سے رائج خاندانی نظام میں بھی، جس میں عورت کی زبانی عزت کی اس کی رائے، مرضی یا فیصلے کرنے کی آزادی سے زیادہ اہمیت ہے، بہت سی تبدیلیاں آئیں گی۔
یہی وہ تبدیلی ہے جس کے خلاف ہمارا حکمران طبقہ ایک منافقانہ رویہ رکھتا ہے۔ خود اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے حکمران پاکستان کی سادہ عوام سے ووٹ لینے کے لیے ان کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کر کے نیکی اور پرہیزگاری کا مجسمہ بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں فیملی سسٹم یا خاندانی نظام ختم ہو رہا ہے اور اسے بچانا ضروری ہے جب کہ ان کا اپنا یہ حال ہے کہ نہ صرف ان کا اپنا خاندان بار بار ان کی اپنی عامیانہ اور منافقانہ حرکتوں کی وجہ سے تباہ ہوتا ہے بلکہ ان کے اپنے بال بچے ملک سے باہر کسی ترقی یافتہ سیکولر ملک میں نہ صرف تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ اسی ماحول میں پرورش پاتے اور زندگی گزارتے ہیں جس کے خلاف ان کے والدین نہایت مکاری سے پاکستان میں ایک مقبول سیاسی بیانیہ بنا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔