جب دلیل ختم ہو جائے تو لوگ گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں

جب دلیل ختم ہو جائے تو لوگ گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں
وہ سچ کہتے ہیں کہ جب کسی شخص کو یک دم ایک ساتھ دولت، شہرت مل جائے تو وہ بدلتا نہیں بلکہ اسکی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ اور پھر اس کا اچھا یا برا رویہ اسے لوگوں کے سامنے بے نقاب کر دیتا ہے۔ مزید یہ کہ جب دلیل ختم ہوجائے تو لوگ اونچی آواز میں گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ نیو ٹی وی کے پروگرام "عائشہ احتشام کے ساتھ" میں عورت مارچ کی کارکن ماروی سرمد، ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر اور جے یو آئی ف کے سینیٹر مولانا فیض محمد شامل تھے اور اس پروگرام کی میزبانی اینکر عائشہ احتشام کر رہی تھیں۔

سب نے اپنی اپنی باری پر بات کر لی تو جب خلیل الرحمان قمر کی باری آئی، انہوں بات کا آغاز کرنے سے پہلے گزارش کی کہ جب میں بات شروع کر لوں تو پھر بیچ میں نہ بولا جائے۔ جیسے میں نے بات سنی اب آپ نے بھی میری بات ویسے سننی ہے تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ پڑھے لکھے لوگ بات کر رہے ہیں۔ یہاں تک تو معاملہ بالکل ٹھیک تھا۔ پھر خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ:

سوال یہ ہے کہ عدالت نے جب یہ منع کر دیا ہے کہ " میرا جسم میری مرضی" جیسے غلیظ، گھٹیا نعرے کو منہا کر دیا جائے۔ تو میں جب ماروی سرمد صاحبہ کو اس کروفر کیساتھ سنتا ہوں تو میرا کلیجہ کھول اٹھتا ہے۔ اس دوران ماروی سرمد نے نعرہ لگایا کہ میرا جسم میری مرضی اور پھر بس کیا تھا کہ خلیل الرحمان قمر نے ایسے سخت الفاظ کا استعمال کیا جو یہاں لکھنا مناسب نہیں اور دیکھنے والے اُف اُف کرتے ہوئے کہنے لگے واقعی کوئی پڑھا لکھا جاہل بحث کر رہا ہے۔

بطور مرد مجھے کافی شرمندگی ہوئی کہ ایک مرد جس کا نام خلیل الرحمان قمر ہے، وہ کبھی ٹی وی سکرین پر سگریٹ پیتا نظر آتا ہے تو کبھی لائیو پروگرام کے دوران ایک خاتون کے منہ پر اس قدر فحش، اور گھٹیا الفاظ کا استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے کہ فحش الفاظ کو بھی آپ بھولنے پر مجبور ہو جاؤ گے۔ یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر 24 گھنٹوں سے وائرل ہے۔

ادھر سوشلستان میں اس بارے ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے اور میرا جسم میری مرضی، خلیل الرحمان قمر ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ سینئر صحافی حامد میر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‏میرے سر پر بال چھوٹے ہوں گے یا بڑے؟ میں مونچھیں شیو کروں یا نہ کروں؟ کوٹ پینٹ پہنوں یا شلوار قمیض پہنوں؟ میرا جسم ہے تو میری مرضی ہی چلے گی۔ میں سر کے بال چھوٹے رکھوں گا؟ مونچھیں بھی شیو نہیں کروں گا تو پھر کسی کو کیا اعتراض ہے؟

اداکارہ ماہرہ خان نے مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے یہ سن اور دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ جیو ٹی وی کی اینکر رابعہ انعم نے ٹوئٹ کی کہ میرا جسم میری مرضی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری تہذیب کے خلاف ہے تو اس پر ایک ہزار مرتبہ بحث کریں لیکن عورت کو گالی دینا تو ہمارے دین میں بھی منع ہے اور تہذیب میں بھی کوئی گنجائش نہیں۔ مجھے شرمندگی ہوئی کہ جیو نے ابھی ابھی اس شخص کے ساتھ ایک کنٹریکٹ سائن کیا ہے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت نے لکھا کہ خلیل الرحمن قمر کا فرعونی انداز دیکھ کر مولائے کائنات سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ قول مبارک پھر سامنے آگیا طاقت، دولت، شہرت اور اختیار (یا اقتدار) انسان کو بدلتے نہیں بے نقاب کردیتے ہیں۔

خیر اس پر بہت سارے لوگوں نے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ میں بہت کچھ شیئر کیا۔ کچھ نے عورت مارچ کی مخالفت، کچھ نے حمایت کی اور باقی رہ جانے والوں نے اس پر میمز اور مزاحیہ باتیں لکھ کر خود اور صارفین کو مزاح سے لطف اندوز کیا۔ اب چلتے ہیں اصل بات کی طرف یقیناً آپ عورت آزادی مارچ کے کسی نہ کسی نعرے پر اختلاف رائے کا اظہار کرسکتے ہیں اور اس کا جواب مہذب انداز میں بھی دے سکتے ہیں نا کہ مغلظات بک کر۔ لیکن اس بات سے آپ کبھی بھی انکار نہیں کر سکتے کہ خواتین کو وہ آزادی، اور حقوق پاکستانی معاشرے میں حاصل نہیں ہیں جو ہونے چاہیے۔

خلیل الرحمان قمر نے کچھ بھی نیا نہیں کیا بلکہ انہوں نے جو زہر ماروی سرمد کے خلاف اگلا ہے وہ ہمارے معاشرے کی حقیقت اور تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ماروی سرمد جیسی جرات عام خواتین میں نہیں۔ اور نا ہی وہ اس طرح بول سکتی ہیں۔ خلیل قمر جیسے مردوں کے پاس جب دلیل ختم ہوجائے تو پھر یہ گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔

مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔