عورت منڈی کا مال نہیں، میرا جسم میری مرضی بنیادی انسانی حق ہے

عورت منڈی کا مال نہیں، میرا جسم میری مرضی بنیادی انسانی حق ہے
عورت مارچ 2020 کی بازگشت کے ساتھ میرا جسم میری مرضی پر ایک بار پھر اعتراض آنا شروع ہو گئے ہیں، اور پیش بندی کے طور عورت مارچ رکوانے کے لئے ایک مرد نے عدالت میں اس مارچ کیخلاف درخواست بھی دائر کر دی ہے، جو معزز عدالت نے سماعت کے لئے منظور کر لی ہے۔ گذشتہ برس بھی کئی مرد، عورت مارچ کے منتظمین کیخلاف اندراج مقدمہ کے لئے ہائی کورٹ گئے تھے۔

سوشل میڈیا پر کئی مرد للکار رہے ہیں کہ عورت مارچ پر پابندی لگائی جائے اور بعض مرد عورتوں کے لئے نئی نئی گالیوں کی اختراع کر رہے ہیں کہ 8 مارچ کو پھر عورتیں آ رہی ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے بھی دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے کہ یہاں ماں، بہن، بیٹی، بیوی کو اپنے جسم پر اختیار کے محض نعرے پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور انہیں غلیظ گالیوں سے نوازا جاتا ہے، ایسی ایسی گالیاں دی جاتی ہیں کہ ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔

مذکورہ مرد اور اس ذہنیت کے مالک چاہتے ہیں کہ عورت کے جسم پر ان کا مکمل اختیار قائم رہے۔ بیٹی، بیوی، بہن اور ماں کے جسم کو وہ کبھی دشمنی میں بدلے کی آگ میں جھونک سکیں۔ گلیوں میں ننگا کر کے گھسٹیں، ننگا کر نچائیں، اغوا کریں، ریپ کریں، جوئے میں ہار دیں یا جیت لیں۔ منڈی کے مال کی طرح فروخت کر دیں یا خرید لیں، جائیداد کو ہڑپ کرنے کے لئے قرآن سے شادی کر دیں۔ وٹا سٹا کے کام میں لے کر آئیں، غیرت میں قتل کر دیں، ناک کاٹ دیں، سر کے بال مونڈھ دیں، قرضہ چکانے کے لئے معصوم بچی کو کسی بوڑھے کے ساتھ بیاہ دیں۔ دفاتر میں، سٹرکوں پر، گلی میں تنگ کریں، آوازیں کسیں، اکیلی ہو تو دبوچ لیں، نوچ لیں۔ کپڑے اتار دیں، کپڑے پھاڑ دیں۔ لیکن، عورت سب کچھ چپ چاپ سہتی رہے کیوں کہ وہ عورت ہے اور اس کے جسم پر مرد کا حق ہے۔ عورت کو اپنے جسم پر بھی کوئی حق نہیں ہے کہ یہ بات بھی کہہ سکے کہ میرا جسم میری مرضی ہے۔ یہ کیسے شوہر ہیں۔ کیسے باپ ہیں۔ کیسے بھائی ہیں۔ کیسے بیٹے ہیں۔ یہ کیسے مرد ہیں۔ کیسی مردانگی ہے۔ اپنی ہی عورتوں کے جسم پر اختیار چاہتے ہیں۔

عورت کے جسم پر عورت کی مرضی کے کیوں خلاف ہیں۔ کیا کسی مذہب میں یہ اخلاقیات ہیں۔ کسی مقدس کتاب میں یہ لکھا ہے یا کسی ملکی قانون میں ایسی کوئی شق ہے کہ عورت اپنے جسم پر اپنی مرضی نہیں رکھ سکتی۔ کس مقدس کتاب میں ہے کہ عورت کے جسم پر مرد کی مرضی چلے گی کہ جس طرح چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے، عورت کے جسم کو برباد کر سکتا ہے۔ نوچ سکتا ہے، بیچ سکتا ہے، حد ہو گئی ہے۔ سماج میں عورت کو انسان کا درجہ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ وحشت، یہ درندگی اور زمانہ جاہلیت کی مثال ہے جب لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ لڑکی کے پیدا ہونے پر سوگ کیا جاتا تھا۔

عورت مارچ کے نعرے میرا جسم میری مرضی کو اپنی مرضی کے معنی پہنانے والے مردہ ضمیر اور غیرت سے عاری مرد، مردانگی کا مظاہرہ کریں۔ بھائی، بیٹا، باپ، شوہر اور رشتوں کے تقدس کا پالن کرتے ہو ئے سوچیں اور مغلظات بکتے ہوئے اپنے گھروں کی عورتوں کی جانب بھی دیکھیں ہو سکتا ہے کہ کچھ غیرت جاگ جائے اور انسان بن کر سوچنے کی طرف جا سکیں۔ جن معاشروں میں عورت کی عزت و ناموس کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور عورت کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے عورت کو محض پرزہ سمجھا ہے۔ ایسے معاشروں کی تباہی و بربادی نوشتہ دیوار ہے۔ دنیا میں ان کی کوئی عزت نہیں کرتا، ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن کر رہ جاتی ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔