’جیسے ہی گھر سے نکلتی برقعہ اتار دیتی تھی‘: کشور ناہید سے کچھ باتیں

’جیسے ہی گھر سے نکلتی برقعہ اتار دیتی تھی‘: کشور ناہید سے کچھ باتیں
اپنے دوستوں اور مداحوں میں وہ کشور آپا کے نام سے جانی جاتی ہیں اور کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ان کے کام کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ گو انہوں نے خواتین کی آزادی کیلئے بہت کچھ کیا ہے لیکن وہ حقوق نسواں کی علمبردار کہلوانا پسند نہیں کرتیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=Gs_wfHVnw48

کشور ناہید ایک قدامت پسند مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں جہاں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ لیکن بچپن ہی سے باغیانہ طبیعت کی مالک کشور نے اپنی والدہ کی مدد سے ہر مشکل پر قابو پایا اور کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ وہیں تک محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے شاعری اور نثر نگاری کی کتابیں اور اپنی سوانح عمری بھی لکھی۔ وہ پابندی سے کالم بھی لکھتی ہیں۔ ان کی شاعری کی تازہ ترین کتاب کا نام "شیریں سخنی سے پرے" ہے۔



سوال: آپ اپنی زندگی کو کیسے دیکھتی ہیں؟

کشور ناہید: قائد اعظم نے کہا تھا کہ کام کام اور بس کام۔ میں نے کہا لکھو، لکھو اور بس لکھو۔ یہ شروعات میں بیحد مشکل کام تھا۔ سب لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم اس طرح کے الفاظ لکھ کر لوگوں کے سامنے اپنے گندے کپڑے دھو رہی ہو۔ لیکن جب میں نے سائمن ڈی بی ایوئیر کی کتاب "دی سیکنڈ سیکس" کا ترجمہ کیا تو میں بیحد مشکل میں گرفتار ہو گئی کیونکہ اس کتاب پر پابندی لگ گئی تھی اور میرے اور نجم سیٹھی کے خلاف وارنٹ گرفتاری نکل آئے تھے۔ ہمیں ضمانت مل گئی لیکن مقدمہ چلتا رہا۔ مقدمہ اس وقت ختم ہوا جب ہم نے دوران سماعت یہ دکھایا کہ یہ کتاب سوسیالوجی سے متعلق تھی۔ پھر ضیاالحق کے دور میں جبیب جالب کہتے تھے کہ میں سرکاری ملازم ہوں جبکہ فیض احمد فیض کا کہنا تھا کہ "ہمارے لوگوں کو حکومت میں کام کرنے دو"۔ فیض نے مجھے مشورہ دیا کہ میں سرکاری نوکری مت چھوڑوں۔

کشور ناہید اردو مرکز لندن میں افتخار عارف کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے۔


میں دنیا میں جہاں بھی گئی انہوں نے میری نظموں کے ترجمے کیے لیکن سب مجھ سے کہتے تھے کہ میں اپنی شاعری اردو میں پڑھوں۔ اب میری شاعری اطالوی زبان میں بھی چھپ چکی ہے۔ انہوں نے مجھے روم میں لیکچر دینے اور شاعری پڑھنے کیلئے بھی مدعو کیا۔ لیکن چیزیں اور بہتر ہو سکتی تھیں اگر حکومت ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے ہماری مدد کرتی۔ میں نے بہت سی جامعات کا دورہ کیا اور جب بھی میں ان جامعات میں داخل ہوتی تھی تو لڑکیاں کھڑے ہو کر ’ہم گنہگار عورتیں‘ پڑھنا شروع ہو جاتی تھیں۔ البتہ میں اپنی مادر علمی پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے باعث نہیں جا سکتی۔ میں اس جگہ سے بہت متاثر ہوں کیونکہ میں وہاں بہت سے لوگوں سے ملی جن میں پطرس بخاری، فیض، عابد علی عابد اور احسان دانش بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے مجھے حوصلہ دیا کہ لکھو، لکھو اور لکھو۔

کشور ناہید اپنے خاوند یوسف کامران اور ادب کے بڑے ناموں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے ہمراہ۔


سوال: آپ تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟

کشور ناہید: پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں آنا ہی تھا کیونکہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی لوگوں کی حمایت کھو چکی تھیں۔ لوگوں نے سوچا کہ انہیں اب اپنی امیدیں تیسری جماعت تحریک انصاف سے وابستہ کرنی چاہئیں۔ کسی نے بھی نہیں کہا تھا کہ عمران خان ترقی پسند تھا اور یہ اس طرح کے لوگ ہیں جو پاکستان میں ہمیشہ سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھتے آئے ہیں۔ مذہبی جماعتیں بھی دیگر سیاسی جماعتوں پر حکم چلاتی ہیں۔



سوال: ہمیں اپنے کام کے بارے میں کچھ اور بتائیے؟

کشور ناہید: جیسا کہ میں نے پہلے کہا میں سرکاری ملازمت کرتی تھی لیکن مارشل لا کے دور میں مجھے فارغ کر دیا گیا اور مجھے میری تنخواہ بھی ادا نہیں کی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب میں نے لاہور کے اندرونی علاقوں میں خواتین کیلئے کام شروع کیا۔ وہاں ایسی بہت سی خواتین موجود تھیں جو گھریلو کام کاج کے علاوہ گزر بسر کیلئے کپڑوں کی سلائی کا کام بھی کرتی تھیں۔ انہیں ایک شرٹ کی سلائی کے آٹھ آنے اور شلوار کی سلائی کے دو روپے ملا کرتے تھے۔ لیکن جب آپ ان کے شوہروں سے پوچھتے تھے کہ آپ کی بیویاں کیا کرتی ہیں تو وہ کہتے تھے کہ کچھ بھی نہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین اٹھارہ گھنٹے کام کرتی تھیں جب بھی میں ان سے یہ کہتی تھی کہ تم لوگ اٹھارہ گھنٹے کام کرتی ہو پھر بھی سب ذمہ داریاں نبھاتی ہو تو ان کا جواب ہوتا تھا آپ ایک اور کام کا ذکر کرنا بھول گئیں۔ ہمیں روزانہ مار پیٹ کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ان کے مرد رات کو گھر دیر سے اور شراب کے نشے میں دھت آتے تھے اور ہم بستری سے انکار کی صورت میں ان پر تشدد کرتے تھے۔ میں ان خواتین کا درد محسوس کر رہی تھی لیکن صرف محسوس کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی۔

کشور ناہید ممتاز مصنف انتظار حسین اور کلاسیکل رقاصہ اندو متھا کے ہمراہ اپنی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے۔


اپنے کام کے دوران میرے ساتھ کئی دلچسپ واقعات پیش آئے۔ ان میں سے کچھ میرے دماغ میں ابھی بھی نقش ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ میں ایک گاؤں میں گئی۔ میں ان دنوں اکثر دیہاتوں میں گھوما کرتی تھی۔ میرے خیال میں میں نے پاکستان کے تمام دیہاتوں کو دیکھ رکھا ہے۔ جب میں ریڈیو کیلئے کام کر رہی تھی اور خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرتی تھی تو ایک بزرگ خاتون میرے پاس آئی اور پوچھا "کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ میں کسی بازار سے یہ حقوق خرید سکتی ہوں"۔ ایک اور واقعہ جو مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ میں نے اور مدیحہ گوہر نے اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک مرتبہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے پرانے لاہور میں تھیٹر کیا۔ ہم مسجد وزیر خان کے علاقے میں سٹیج ڈرامہ کر رہے تھے۔ وہاں کے مولوی صاحب نے اذان دس منٹ پہلے ہی دے دی تاکہ وہ بھی ہمارا تھیٹر ڈرامہ دیکھ سکیں۔ جب میں دیہاتوں میں جاتی تھی اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہی پھیلاتی تھی تو خواتین مجھ سے کہتی تھیں کہ آپ ہمیں نہیں ہمارے خاوندوں کو قائل کیجئے۔ ہمیں اس بات کے ادراک کی ضرورت ہے کہ مردوں کو زیادہ تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔ آج کل ہم کر کیا رہے ہیں کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کی شادی ایک ان پڑھ مرد سے کروا دیتے ہیں جو باہر کے کسی ملک میں بطور ٹیکسی ڈرائیور کام کر رہا ہوتا ہے اور ایسا محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ لڑکی شادی کے بعد ملک سے باہر جا سکے۔ یہاں تعلیم کو ترجیح نہیں دی جاتی بلکہ پیسے کو ترجیح دی جاتی ہے۔



سوال: آپ نے ایک زمانے میں رقص سیکھنا بھی شروع کیا تھا؟ آپ نے پھر اس کو ادھورا کیوں چھوڑ دیا؟

کشور ناہید: جی ہاں میں تقسیم ہند و پاک سے پہلے رقص سیکھ رہی تھی لیکن جب ہم نے پاکستان میں ہجرت کی تو ہمارا اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔ ہم خالہ کے گھر میں دو سال تک ایک کمرے میں رہائش پذیر رہے۔ اس گھر میں بہت سی پابندیاں لاگو تھیں۔ ہمیں اپنے کزنوں کے ساتھ بات تک کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے میں نے اپنا زیادہ وقت کتابیں پڑھنے میں صرف کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اردو اور انگریزی کی لغات بھی پڑھ ڈالیں۔ مجھے کتابیں پڑھنے کی عادت ہو گئی۔ میرے خیال میں میں کتابوں کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیار کرتی ہوں۔

کشور ناہید مسعود اشعر، انتظار حسین، جمیلہ ہاشمی، انتظار حسین کی اہلیہ اور دیگر کے ہمراہ۔


سوال: آپ کو کس نے متاثر کیا؟ کیا آپ نے لکھنے کی ابتدا شاعری سے کی یا پھر نثر نگاری سے؟

کشور ناہید: میں بہت سا نثری مواد پڑھتی تھی اور میری بہت خوبصورت یادیں ہیں اس وقت کے ساتھ جب میں اپنی ماں کی گود میں بیٹھا کرتی تھی اور وہ مجھے شاعری سنایا کرتی تھیں۔ جب جگن ناتھ آزاد آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ میں نے آپ کی پہلی غزل سنی تھی "تم نے کیا یاد"۔ (اپنی یونیورسٹی کے تعلیم اور بعد کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے کشور ناہید نے کہا کہ) مجھے حمید نظامی (مرحوم) نے ایک سائیکل اور 75 روپے کی پیشکش کی تھی تاکہ میں اپنی یونیورسٹی کے اخراجات برداشت کر سکوں لیکن میرا خاندان اس بات پر آمادہ نہیں ہوا۔ میں نے پاکستان ٹائمز کیلئے اس وقت مختصر کہانیاں لکھیں جب

ایلیکس فیض اور ڈاکٹر رفعت رشید اس کے مدیران ہوا کرتے تھے۔ میں نے اپنے دیہاتوں کے سفر سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ میں اسے اپنی تربیت کا ایک حصہ بھی سمجھتی ہوں۔ ابتدا میں میری تحاریر بچوں کے صفحات میں شائع ہوا کرتی تھیں، لیکن بعد میں عزیز صدیقی اور بینا سرور نے مجھے قائل کیا کہ میں فرنٹیئر پوسٹ کیلئے لکھنا شروع کروں۔ (اپنے بچپن کا واقعہ یاد کرتے ہوئے کشور ناہید کہتی ہیں) مجھے لکھنے کا بہت شوق تھا تو میں نے بہت سے قلمی دوست بنا لیے۔ مجھے بہت سے خطوط وصول ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نویں جماعت کی طالبہ تھی تو ایک شخص نے مجھے ملنے کا بھی کہا لیکن میرے خاندان نے منع کر دیا۔



سوال: کیا یوسف کامران آپ کا پہلا اور واحد پیار تھے؟

کشور ناہید: یوسف صاحب میرے کلاس فیلو تھے اور ہم مشاعروں پر اکٹھے جایا کرتے تھے۔ جب بھی میں ان شاعری مقابلوں میں کوئی ٹرافی جیتتی تو اسے گھر والوں سے چھپا کر رکھتی۔ گھر سے باہر نکلتے وقت مجھے گھر والوں کے دباؤ کی وجہ سے برقعہ اوڑھنا پڑتا تھا لیکن جیسے ہی میں گھر سے باہر نکلتی تو میں برقعہ اتار دیا کرتی تھی۔ اور اب بہت سے غیر ممالک کی خواتین جن میں جاپان، آسٹریلیا، کوریا، بھارت اور اٹلی بھی شامل ہیں، مجھ پر تھیسس کر چکی ہیں۔

سوال: بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ہم جنس شادی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ آپ نے اپنی ایک کتاب میں اس بارے اپنے ایک تجربے کا بھی ذکر کیا تھا۔ آپ اس فیصلے کو کیسا دیکھتی ہیں؟

کشور ناہید: جی ہاں یہ میں نے "بری عورت کی کتھا" میں تحریر کیا تھا اور یہ بچگانہ تھا۔ میرے خیال میں یہ ایک قدرتی عمل ہے اور ہر معاشرے کا حصہ ہے۔

سوال: آپ کو سب زیادہ متاثر کیا شے کرتی ہے؟

کشور ناہید: بہت سی چیزوں نے مجھے متاثر کیا۔ تقسیم نے مجھے متاثر کیا۔ میرے والد مسلم لیگ میں سرگرم تھے اور انہیں اس باعث جیل جانا پڑا۔ اس لئے جیل سے میری آشنائی بہت چھوٹی عمر میں ہی ہو گئی۔ لوگ فلمی ہیروئنوں کے دلدادہ ہوا کرتے تھے جبکہ ہم علی گڑھ کی خاتون طالبات کو دیکھ کر متاثر ہوتی تھیں جو کالا برقعہ اور سفید غرارہ پہن کر یونیورسٹی جایا کرتی تھیں۔ میں ہمیشہ ان کی مانند بننا چاہتی تھی۔ ہمارے شہر سے 1947 کے دنگوں کے دوران ایک عورت کو اغوا کر لیا گیا اور جب وہ واپس آئی تو اس کی واپسی کی خبر پھیل گئی۔ ہر کوئی اسے دیکھنے کو جا پہنچا۔ مجھے اس کے پاؤں خون اور مٹی میں بھرے دکھائی دیے اور میں اس کی تصویر کو کبھی ذہن سے نہ نکال پائی۔ خواتین کے ساتھ ان کی پیدائش کے وقت سے ہی صحیح طریقے سے برتاؤ روا نہیں رکھا جاتا۔ انہیں بچپن سے بتا دیا جاتا ہے کہ انہیں اپنے بھائیوں کیلئے پانی لانا ہے ان کے کپڑے استری کرنے ہیں اور ان کے سارے کام کرنے ہیں لیکن جب کھانے کی باری آتی ہے تو لڑکیوں کیلئے "ایک بوٹی اور ایک آلو" جبکہ لڑکوں کیلئے دو دو۔ مجھ پر ان تمام چیزوں کا گہرا اثر ہوا۔ میں اپنی ماں کی شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے سکول بھیجا۔

سوال: کیا آپ کی نامکمل رہ جانے والی کوئی خواہشات ہیں؟

کشور ناہید: میں نے کبھی کسی شے کی تمنا نہیں کی۔ میں زیورات کی شوقین نہیں تھی اور نہ ہی سلک کی دلدادہ تھی۔ البتہ مارشل لا کے دور میں مجھے ساڑھی پہننے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ لیکن اب میں نے ساڑھیاں پہننا بھی چھوڑ دیا ہے۔ مجھے کبھی بھی اپنے سر کو ڈھانپنا اچھا نہیں لگتا تھا اس لئے میں نے کبھی اسے نہیں ڈھانپا۔ یہاں تک کہ میں نے ضیاالحق کے دور میں بھی اپنے سر کو نہیں ڈھانپا اور جب شیریں مزاری نے دباؤ میں آ کر سر ڈھانپنا شروع کیا تو میں نے ایک کالم بھی تحریر کیا۔ میرا خیال ہے کہ ویسے سر ڈھانپنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔

سوال: اگر آپ کو دوبارہ زندگی بسر کرنے کا موقع ملے تو کیا آپ اسے مختلف طریقے سے گزاریں گی؟

کشور ناہید: نہیں میرے خیال میں، میں زندگی میں لیے گئے اپنے تمام فیصلوں سے بیحد مطمئن ہوں۔

سوال: کیا آپ اپنی عملی زندگی کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنا چاہیں گی؟

کشور ناہید: میری عملی زندگی ہمیشہ ہی سے متحرک تھی۔ جب میں گھر پر ہوتی تھی تب بھی مختلف منصوبوں پر کام کرتی رہتی تھی۔ ان میں سے ایک منصوبہ رقص کا میلہ تھا جو میں نے کراچی میں منعقد کروایا۔ یہ ایونٹ میرے استعفے کا باعث بھی بنا کیونکہ شیخ رشید نے اس میلے پر تنقید کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کے پروگرام ہمارے معاشرے کی روایات کے خلاف ہیں۔ یہاں تک کہ استعفے کے بعد جب مجھے گھر بھیج دیا گیا تب بھی میں مختلف گروہوں کے ساتھ رابطے میں رہی اور ان کی زندگیاں بہتر بنانے کی کوشش کرتی رہی۔ اور ایک بار پھر میرا کام زندگی میں واپس آ گیا یہاں تک کہ گھر کے اندر بھی۔