Get Alerts

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

2 فروری 2023 کو میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے فرسٹ کزن چودھری نعیم گھمن کی تیمارداری کے لئے ان کے گھر گیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تشریف لے آئے۔ ابتدائی گپ شپ کے بعد کہنے لگے کہ آپ کے سوالات مجھ تک پہنچتے رہے۔ ان سے یہ ملاقات خاصی طویل رہی۔


بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ان کے ساتھ غلط منسوب کی گئی ہیں مثلاً یہ کہ طلعت حسین، مرتضیٰ سولنگی اور نصرت جاوید کو انہوں نے نوکریوں سے نکلوایا تھا اور یہ بھی کہ ابصار عالم پر انہوں نے حملہ کروایا تھا۔ حقیقت لیکن اس کے برعکس ہے۔ یہ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں تین اشخاص کی 'جھوٹ بولنے کی عادت' سے بڑے تنگ ہیں۔ ایک عمران خان، دوسرا شیخ رشید اور تیسرا ایک صحافی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میر شکیل الرحمان کو جیل بھجوانے میں بھی جنرل باجوہ کا ہاتھ تھا جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ میر شکیل کو عمران خان نے جیل میں ڈلوایا تھا، جنرل باجوہ نے تو الٹا انہیں جیل سے نکلوایا تھا۔

آج کل حامد میر اور طلعت حسین جنرل باجوہ کے بہت خلاف ہیں۔ حامد میر نے نسیم زہرا کے حوالے سے بھی جو بات کی کہ اس نے جنرل صاحب کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں شٹ اپ کال دی تھی وہ بالکل غلط ہے۔

طلعت حسین کے قریبی ذرائع کے مطابق ان کو لگتا ہے کہ  جنرل باجوہ نے انہیں نوکری سے نکلوایا تھا۔ طلعت حسین کو بھی انہوں نے نہیں جنرل فیض نے نوکری سے نکلوایا تھا۔ آرمی چیف نے تو طلعت حسین کی مدد کی تھی۔ طلعت حسین جب پہلی مرتبہ نوکری سے فارغ ہوئے تو وہ جنرل صاحب کے کزن انجم وڑائچ کو لے کر ان کے پاس گئے۔ باجوہ صاحب نے تو الٹا جنرل فیض حمید کے ذریعے ان کی مدد کی تھی۔

پھر کہا جاتا ہے کہ مرتضیٰ سولنگی، نصرت جاوید وغیرہ کو بھی انہوں نے ان کے چینلز سے نکلوایا تھا؟

لیکن جنرل باجوہ اب سے کچھ عرصہ قبل تک مرتضیٰ سولنگی کے بارے کیں بہت ہی کم جانتے تھے۔

ابصار عالم کو گولی لگنے کا الزام بھی جنرل باجوہ پر لگایا جاتا ہے۔

لیکن جنرل باجوہ اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ میرے ساتھ ملاقات میں انہوں نے صاف کہا کہ آپ ایک انسان کو قتل کرنا معمولی بات سمجھتے ہیں، میں نے قبر میں نہیں جانا؟ میں نے آج تک کسی بے گناہ کو مارنے کا حکم نہیں دیا۔

ابصار عالم تو جنرل باجوہ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے جنرل صاحب کو آرمی چیف بنوانے میں مدد بھی کی اور انہوں نے ابصار عالم پر پھر بھی گولی چلوائی۔

لیکن جنرل باجوہ کے مطابق وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔

کچھ ذرائع اس حوالے سے جنرل عرفان ملک کو بھی الزام دیتے ہیں کیونکہ ابصار عالم نے ان کی تصویر ٹویٹر پر لگائی تھی۔ ان لوگوں کو خدشہ ہے کہ شاید انہوں نے یہ کام غصے میں کیا ہوگا؟ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے نیچے کے لیول پر کسی کو غصہ آ گیا ہو اور اس نے یہ کام کیا ہو۔

جنرل باجوہ اسد طور کو بھی نہیں جانتے تھے۔ انہیں اسد طور کے واقعے کا بھی اگلے دن پتہ چلا تھا۔ آرمی چیف کو ہر چیز کی خبر نہیں ہوتی، اس کے کرنے کے اور بہت کام ہوتے ہیں۔

سابق آرمی چیف پر اعظم سواتی اور شہباز گل کو ننگا کرنے کا بھی غلط الزام لگایا گیا۔ یہ ساٹھ باسٹھ سال کے ہیں۔ یہ اس عمر میں کسی کو ننگا کروائیں گے؟ ستر سال کے بزرگ اعظم سواتی کو ننگا کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ بھی بکواس ہے۔ ان پر شہباز گل کو ننگا کرنے کا الزام بھی غلط ہے۔ ان کا ان چیزوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن اعظم سواتی نے انہیں باسٹرڈ تک لکھ دیا۔

پولیس اور ایف آئی اے بھی ایسے معاملات میں اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایجنسیوں میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ نچلے لیول پر ہوتا ہے۔

ایمان مزاری نے پوسٹر لگایا 'جنرل باجوہ بے غیرت ہے' تو اس پر جوانوں کو غصہ آیا۔ ایک میجر نے کہا کہ سر آپ بے غیرت ہیں۔ ہم اس کو فکس کریں گے، تو جنرل باجوہ نے منع کر دیا کہ نہیں بس قانونی طریقے سے نمٹیں اور اس ایشو کو ختم کر دیں۔ یہ ہر طرح کی تنقید برداشت کرتے تھے لیکن ادارے کی عزت کا بھی سوال ہوتا ہے۔

پھر ایمان مزاری کے خلاف جی ایچ کیو نے باقاعدہ ایف آئی آر درج کروائی۔ جسٹس اطہر من اللہ کی بیٹی ایمان مزاری کی دوست ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کو ضمانت دے دی۔ اس کے بعد جنرل صاحب نے جان بوجھ کر اس کیس کی پیروی نہیں کی تا کہ معاملہ وہیں ختم ہو جائے۔

فوج اور فوجی افسروں کے خلاف جو مرضی کہہ دیں، الزام لگا دیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ فوجی افسر جواب بھی نہیں دے سکتے۔ ججوں کے بارے میں بات کریں گے تو وہ جواب دے لیتے ہیں۔ لیکن فوجی افسران کے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں ہے۔ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین کمزور ہیں۔

جنرل باجوہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جنرل عرفان ملک کو آئی ایس آئی سے اس لئے ہٹایا کہ انہوں نے مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دی تھی؟

لیکن انہیں جنرل باجوہ نے نہیں، جنرل فیض نے ہٹایا تھا۔ جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی سی دونوں کا کام خود کرنا چاہتے تھے۔

کراچی میں مریم نواز کے کمرے میں فوجی افسران کے گھسنے کا حکم بھی انہوں نے نہیں دیا تھا۔ برگیڈیئر حبیب اس وقت سیکٹر کمانڈر تھے۔ کیپٹن صفدر نے مزارِ قائد پر نعرے بازی کی تو عوام، فوجی جوانوں اور میڈیا کا دباؤ تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جنرل فیض نے مقدمہ درج کرنے کا کہا تھا مگر نچلے لیول پر کچھ زیادہ ہو گیا۔ تاہم، پولیس نے جب ریڈ کیا تو کیپٹن صفدر اور مریم نواز الگ الگ کمروں میں تھے۔ وہ دونوں ایک کمرے میں نہیں تھے۔

اس وقت افواہیں تھیں کہ جنرل باجوہ کو اس حوالے سے نواز شریف نے بھی فون کیا لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں، نواز شریف نے فون کیا نہ کوئی شکایت کی۔ البتہ فوج نے ذمہ دار افسر کو ہٹا دیا تھا۔

صحافیوں سے ایک ملاقات کے بعد جنرل باجوہ کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ وہ شیو کرتے ہوئے صدیق جان کو سنتے ہیں؟ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف کا انٹلیکچوئل لیول اتنا پست ہے؟

جنرل باجوہ نے ایسا کہا ضرور تھا کہ انہیں کسی نے صدیق جان کا وی لاگ بھیجا تھا تو شیو کرتے ہوئے سنا اور یہی فارغ وقت ملا۔ ویسے بھی جب آپ دباؤ میں ہوتے ہیں تو آپ وہی بات سننا چاہتے ہیں جو آپ کے حق میں ہو اور آپ کے مخالف کے خلاف ہو۔ بعض اوقات آپ کسی کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

اکثر سوال ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے صحافی کیسے عمران خان کے کیمپ میں چلے گئے اور ایسے بھی جن کو بنایا ہی فوج نے تھا؟

معاملہ یوں ہے کہ فوج نے واقعی کچھ صحافیوں کو بنایا، ان کو خبریں بھی دیتے تھے، ان سے پروگرام بھی کرواتے تھے۔ ہوا یہ کہ جب فوج کی ن لیگ کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی تو اسے ایسے صحافیوں کی ضرورت تھی جو ن کے خلاف بات کریں یا ان کے مخالف ہوں۔ اسی طرح اے آر وائی کی انہیں اس لئے ضرورت تھی کہ وہ ان کی بات کرتا تھا۔ چودھری غلام حسین اور صابر شاکر کو تو جنرل باجوہ فیلڈ میں بھی ساتھ لے کر گئے۔ جب فوج نے اپنی پالیسی تبدیل کی تو انہیں ایسے صحافیوں کو آہستہ آہستہ بتانا چاہیے تھا۔ آہستہ آہستہ ان کا بیانیہ بدلنا چاہیے تھا اور ان کو آہستہ آہستہ تبدیل کرتے لیکن انہوں نے یہ نہیں کیا اور ایک دم اپنی سائیڈ بدل لی۔ اس سے وہ صحافی وہیں پر رہ گئے۔

دوسرا عمران خان جھوٹ بولنے میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ وہ بہت چالاک آدمی ہیں اور بار بار جھوٹ بولتے ہیں اور لوگ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔

اوریا مقبول جان کے نام پر جنرل باجوہ ہنستے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک وہ بھی بہت جھوٹا آدمی ہے۔ پہلے اس کو جنرل صاحب کے بارے میں خواب میں بشارت ہوتی تھی اور اب انہی کی مخالفت کرتا ہے۔

ارشاد بھٹی کو جنرل باجوہ نے جیو میں نہیں رکھوایا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن ان کے سُسر جنرل اعجاز امجد انہیں اپنے دوست کے ہاں ڈنر پر لے گئے۔ جب یہ اسلام آباد ان کے دوست کے گھر پہنچے تو یہ صدرالدین ہاشوانی کا گھر تھا۔ باجوہ صاحب اس وقت میجر جنرل تھے۔ وہاں صدرالدین ہاشوانی نے ارشاد بھٹی کا تعارف کروایا کہ وہ ہمارا میڈیا کا سیٹ اپ دیکھتا ہے۔ پھر اس کے بعد ارشاد بھٹی جنرل باجوہ کے پاس آنا شروع ہو گئے۔ جب یہ کور کمانڈر بنے تب بھی بھٹی صاحب پاس باقاعدگی سے ان کے پاس آتے رہے۔

میر شکیل الرحمان کو عمران خان نے جیل میں ڈلوایا تھا۔ جنرل باجوہ نے میر شکیل الرحمان کو جیل سے نکلوایا۔ انہوں نے عمران خان سے کہا تھا کہ میر شکیل الرحمان کینسر کا مریض ہے وہ جیل میں ہی مر جائے گا تو پھر اس نے بات مانی۔

میری جنرل باجوہ سے ملاقات کے وقت میڈیا پر شیخ رشید کی گرفتاری کی خبر چل رہی تھی۔ جنرل باجوہ اس خبر پر حیران تھے کہ شیخ رشید گرفتار ہو گیا ہے۔ ان کے خیال میں شاید شیخ رشید کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونہ وہ اتنا اہم انسان نہیں۔

حالانکہ وہ تو جی ایچ کیو کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اور خود بھی بتاتے ہیں۔

حقیقت لیکن کچھ مختلف ہے۔ شیخ رشید کوئی جی ایچ کیو کے قریب نہیں ہے، وہ ایسے ہی ڈینگیں مارتا ہے۔ جب جنرل باجوہ گورڈن کالج گئے تو اس سے چھ سال پہلے شیخ رشید کالج سے جا چکا تھا۔ جنرل باجوہ تو اس کو زندگی میں صرف دو دفعہ ملے ہیں۔ ایک دفعہ وہ فروری 2022 میں جنرل صاحب کے پاس آیا اور کہتا کہ عمران خان سے حکومت نہیں چل رہی، کچھ کریں۔

جنرل باجوہ کے نزدیک شاید شیخ رشید کا کوئی انٹلیکچوئل لیول نہیں ہے۔ بالکل فارغ ہے اور مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور ایسے ہی نجومیوں کی طرح تاریخیں دیتا ہے۔

(جاری ہے)

مصنف صحافی اور اینکر پرسن ہیں۔