گلگت بلتستان (جی بی) کا خطہ پاکستان میں وسیع و عریض گلیشیئرز اور دنیا کی کچھ بلند ترین چوٹیوں کا مسکن ہے، جن میں دوسری بلند ترین کے-2 بھی شامل ہے۔ یہ ایڈونچر کے شوقین اور فطرت سے محبت کرنے والوں کی پسندیدہ منزل ہے۔
خطے کے موسم سرما کے کھیلوں کے تہوار، جیسے سیون ڈیز ونٹر فیسٹ اور قراقرم ونٹر لیوڈ میں روایات اور ایتھلیٹکس دونوں کا جشن منایا جاتا ہے، جو کہ گلگت بلتستان کے شاندار ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔ روایتی کھیل کھیلے جاتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ خطے میں کھیلوں اور ثقافت کے درمیان گہرا تعلق برقرار رہے۔
تاہم، اس طرح کے تہواروں کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرہ لاحق ہوتا جا رہا ہے۔ غیر یقینی کے سایوں نے سردیوں کی ان روایات میں خلل ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
گرم سردیوں نے تہواروں میں خلل ڈال دیا ہے
اس سال موسم سرما کے گرم درجہ حرارت نے خطے کے تہواری کیلنڈر کو الٹ پلٹ کرڈالا، جس سے نظام الاوقات میں خلل پڑا ہے اور ایونٹ کے مقامات میں آخری لمحات میں تبدیلیوں کی ضرورت پڑی۔
جی بی ونٹر سپورٹس ایسوسی ایشن کے صدر امجد ولی کہتے ہیں، “یہ موسم سرما خاصا عجیب رہا ہے، عام طور پر یہاں نومبر اور دسمبر میں برف باری ہوتی ہے، لیکن ہمارے پاس اس بار بمشکل ہی برف باری ہوئی ہے۔”
علاقائی حکومت کے ٹورازم سپورٹس اینڈ کلچرل ڈپارٹمنٹ کی طرف سے مقامی کمیونٹیز اور تنظیموں اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں ہماری ٹیم کے ساتھ مل کر منعقد کیا گیا سیون ڈیز ونٹر فیسٹ، 2017 میں اپنے افتتاح کے بعد سے ایک ثقافتی مرکز بن گیا ہے جو آئس ہاکی اور آئس سکیٹنگ جیسے سرمائی کھیلوں کا انعقاد کرتا ہے۔ یہ تہوار ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی کام کرتا ہے جس میں روایتی کھیل جیسے بصرہ، پنڈوک اور بالبٹ کا انعقاد بھی شامل ہیں۔
یہ تہوار اب بدلتے ہوۓ موسم کے رحم و کرم پر ہیں۔ تاخیر سے ہونے والی برف باری، جو کبھی شاذونادر ہی ہوتی تھی، گلگت بلتستان میں عام ہوتی جارہی ہے، جو منتظمین اور شرکاء دونوں کےلئے یکساں طور پر بڑی مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ سیون ڈیز فیسٹیول، جو عام طور پر 2-10 جنوری کے بیچ منایا جاتا تھا۔ اس سال 22-24 جنوری تک ملتوی کرنا پڑا؛ زیادہ درجہ حرارت جمی ہوئی جھیلوں کی ناکامی کا باعث بنا، جو کہ سکیٹنگ کے لئے آئس رنکس کا کام کرتی ہیں۔ بنیادی طور ور خطے کے سب سے بڑے شہر اسکردو میں منعقد ہونے والی اس تقریب کو تین بار گلگت بلتستان کے مختلف جھیل والے دیہاتوں میں منتقل کیا گیا۔
یہ تبدیلیاں موسم سرما کی تہواروں میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتی ہیں، جو روایت، تقریب کی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی حقائق کے درمیان نازک توازن کو اجاگر کرتی ہیں۔ والی کہتے ہیں،” موسم میں تبدیلی صرف طبعی منظر نامے کو تبدیل نہیں کر رہی ہے، یہ ہمارے ثقافتی کیلنڈر کو دوبارہ لکھ رہی ہے”۔
پچھلے تین سالوں کے دوران، خطہ میں اور پاکستان کے زیر انتظام وسیع تر کشمیر میں اوسط سے کم برف باری ہوئی ہے۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے اندالو ایجنسی کو بتایا کہ “پاکستان میں گزشتہ سال کے اس عرصے کے مقابلے میں دسمبر اور جنوری میں اب تک 92فیصد اور 80فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں۔”
ایک غیر یقینی معاشی مستقبل
ثقافتی اہمیت کے علاوہ، یہ تقریبات مقامی معیشت میں لائف لائن کا درجہ رکھتی ہیں۔ کاروباروں نے تجارت کو بڑھانے کے لئے سیاحوں کی سالانہ آمد پر انحصار کرنا شروع کر دیا تھا، لیکن جیسے جیسے برف باری کی آمد اور دورانیہ زیادہ غیر متوقع ہوتا جا رہا ہے، یہ اقتصادی لائف لائن تیزی سے کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے خاص طور پر دکاندار، ہوٹل کے کاروبار اور کاریگر شدید متاثر ہو رہے ہیں، جو موسم سرما کے مہینوں میں کمائی کے لئے تہواروں سے ہونے والی سیاحت پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
سپورٹس اینڈ سوشل ویلفیئر کلب گلمیت ینگ سٹارز کے صدر اسلم شاہ کا کہنا ہے کہ ضائع ہونے والے وسائل اور تجارتی اوقات میں کٹوتی کی وجہ سے مقام انعقاد کی تبدیلی کے معاشی اثرات شدید ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہم نے پندرہ دن تک دن رات انتھک محنت کرکے آئس رِنک تیار کی تھی، لیکن بدقسمتی سے انعقاد نہ ہوسکا کیونکہ موسمی حالات نے اس کی اجازت نہیں دی۔” “گزشتہ سال، تقریبات 10 دن تک جاری رہیں اور بہت سے منسلک کاروباروں کو فائدہ پہنچا، لیکن اس سال انہیں صرف تین دن تک محدود کرنا پڑا ہے۔”
اسی طرح، حاجی بی بی جیسے مقامی تاجر، جنہوں نے تہواروں میں فروخت کے لئے خصوصی دستکاری کی مصنوعات تیار کرنے میں وقت اور وسائل صرف کئے تھے، خود کو مایوس اور مالی غیر یقینی صورتحال سے دوچار پایا۔ وہ کہتی ہیں، “پچھلے سالوں میں، میں ان تہواروں میں اپنے سٹال سے اچھی خاصی رقم کماتی تھی۔ اس سال، میری تمام کوششیں بے نتیجہ رہیں گی”۔ بہت سے رہائشیوں اور کاروباری مالکان نے اسی طرح کی جھنجھلاہٹ اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
بی بی کہتی ہیں، ” اس مہنگائی میں، ہوٹل کا کاروبار کرنے والوں اور مجھ جیسی بہت سی دوسری خواتین کو اس سال اضافی آمدنی کی امید تھی، لیکن اس سال ہماری قسمت بہت بری رہی”۔
موسمیاتی تبدیلی ایک اٹل حقیقت ہے، اس سے انکار محض تباہی ہے
برف باری کی تاخیر سے آمد اس خطے میں زراعت اور وسیع تر ماحولیاتی نظام کے لئے بھی خطرہ ہے، جو دنیا کے سات بڑے گلیشیئرز میں سے تین کا گھر ہے، جہاں مجموعی طور پر برفانی زمین کا احاطہ 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ ہمارے ساتھی، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقائی سربراہ، حیدر رضا بتاتے ہیں، “موسم کے آخر میں ہونے والی برف باری پہاڑوں پر مناسب طریقے سے جم نہیں سکے گی۔ جیسے ہی سورج نکلے گا اور موسم بدلے گا یہ تیزی اور آسانی سے پگھلنا شروع ہوجاۓ گی”
اس سے سیلاب، برفانی جھیلوں کے پھٹنے اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ رضا بتاتے ہیں کہ اس کے نتائج بہت دور رس ہیں، جو قابل کاشت زمینوں، ضروری انفراسٹرکچر، جنگلی حیات، مویشیوں اور گھروں کی تباہی کا باعث بنیں گے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ “زرعی زمینوں، اہم انفراسٹرکچر، اور مقامی کمیونٹیز اور زیریں حصّے میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے خطرہ ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ دریں اثنا، برف باری کی کمی، اوپر سے موسم بہار اور گرما کی قریب آمد، فصلوں کے تحفظ اور مٹی کے استحکام کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ برف، مٹی کے لئے موصولیت کی مانند ہے، اسکی غیر موجودگی کا مطلب مٹی کو گہری ٹھنڈ کا سامنا ہوگا۔
رضا ان چیلنجوں سے نمٹنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور مقامی کمیونٹیز میں لچک پیدا کرنے کے لیے فعال اقدامات کی ضرورت ہے۔
سیون ڈے ونٹر فیسٹ میں، گلگت بلتستان کے سیکرٹری سیاحت، کھیل اور ثقافت آصف اللہ خان نے اس سال کے تہواروں میں موسمیاتی تبدیلی کے کردار کو تسلیم کرتے ہوۓ کمیونٹی کی لچک کے حوالے سے امید کا اظہار کیا۔ خان نے کہا، “حالات کے پیش نظر مختصر المدّت تقریبات کامیاب رہی ہیں۔ تاہم، ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو نظر انداز نہیں کر سکتے، جس کی وجہ سے ہم تقریبات کا دورانیہ مختصر کرنے پر مجبور ہوۓ۔”
موسمیاتی اثرات ایسے تھے کہ تقریب کے آخری دن ایک موسمیاتی تبدیلی سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس کا موضوع تحفظ کے چیلنجز پر بحث پہ مرکوز تھا۔ قراقرم ونٹرلوڈ فیسٹیول کی تھیم میں اس سال موسمیاتی تبدیلی کی اہمیت کی عکاسی کی گئی: “موسمیاتی تبدیلی ایک اٹل حقیقت ہے، اس سے انکار محض تباہی ہے۔”
لیکن جہاں موسمیاتی تبدیلی سے وابستہ مشکلات ناگزیر اور قابل فکر ہیں، یہ گلگت بلتستان کے لئے ایک مزید پائیدار اور لچکدار مستقبل کی طرف اقدامات کا ایک موقع بھی پیش کرتے ہیں۔
ولی کہتے ہیں، “ہم نے اس تہوار کو بطور ایک پلیٹ فارم استعمال کرنے کا ایک موقع دیکھا تاکہ لوگوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن نتائج کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔ یہ ضروری ہے کہ مقامی باشندے یہ جانیں کہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے کیسے مطابقت پیدا کر سکتے ہیں اور یہ کہ ہمیں اپنے خدشات بیرونی دنیا تک بھی پہنچانے ہیں۔”