نواز مخالف مہم اور ممبئی حملوں پر پاکستان میں مسلسل نفی کی کیفیت

نواز مخالف مہم اور ممبئی حملوں پر پاکستان میں مسلسل نفی کی کیفیت
از کنور خلدون شاہد

نواز شریف کے 2008 کے ممبئی حملوں پرحالیہ تبصرے پر پاکستان میں انتہائی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اُن کے خلاف ہائی کورٹس میں غداری کی درخواستیں دائر کی گئیں تو دوسری طرف نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں سابق وزیرِ اعظم کے بیان کو "غلط اور گمراہ کن" بھی قرار دیا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف نے اپنی طرف سے کچھ ظاہر نہیں کیا، اور نہ ہی کوئی ایسی بات کہی ہے جس کا کسی کو پہلے سے علم نہ تھا، لیکن اس بات کو زبان پر لانے سے پھیلنے والے اشتعال سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ان حملوں کے حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور یہ بھی کہ ملک میں اس جنگجویانہ بیانیے سے پیدا ہونے والے جذبات کس قدر شدید ہیں۔



ممبئی حملوں کے چند طے شدہ حقائق مندرجہ ذیل ہیں:

بائیس نومبر 2008 کو دس پاکستانی انتہا پسند، جنہیں سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے قریب ٹریننگ دی گئی تھی، ایک کشتی کے ذریعے کراچی سے روانہ ہوئے۔ اُنہوں نے مچھلیاں پکڑنے والی ایک بھارتی کشتی پر قبضہ کر کے تمام عملے کو ہلاک کر دیا، اور اس پر سوار ہو کر ممبئی پہنچے۔ شہر کے اندر داخل ہونے کے بعد وہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ اُنہوں نے چھبیس نومبر سے لے کر انتیس نومبر تک بارہ جچے تلے حملے کیے۔ ان حملوں میں حملہ آوروں سمیت 166 افراد ہلاک ہوئے۔

ممبئی حملوں میں زندہ پکڑے جانے والے واحد دہشتگرد اجمل قصاب نے اعتراف کیا کہ اُس کا تعلق لشکرِ طیبہ سے ہے۔ اُسے اکیس نومبر 2012 کو بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پھانسی کی سزا دے دی گئی۔



یہ بھی حقیقت ہے کہ ممبئی حملوں میں شریک تمام انتہا پسند پاکستانی تھے۔ اُن کا تعلق لشکرِ طیبہ سے تھا، اور اُنہیں سندھ میں ٹریننگ دی گئی تھی۔ سابق صدر پرویز مشرّف سمیت متعدد لوگ اس بات کا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ لشکر طیبہ کو پاکستانی ادارے اپنے غیر ریاستی ونگ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔

ذکی الرحمان لکھوی کون ہے؟

اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ لشکرِ طیبہ ذکی الرحمن لکھوی اور حافظ سعید کی قیادت میں ممبئی حملوں میں ملوث تھی۔ ذکی الرحمن کو تین سال قبل پاکستان کی ہائی کورٹ نے رہا کیا تھا، جبکہ حافظ سعید آج کل ایک سیاسی جماعت کی قیادت کرتے ہوئے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔



مختلف آزاد ذرائع حافظ سعید کی ان دس حملہ آوروں کے ساتھ براہِ راست رابطے کی تصدیق کرتے ہیں۔ حافظ سعید ان حملہ آوروں کو کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ، "گولی لگنے کی تکلیف اتنی ہی ہوگی جتنی ایک پن چبھنے کی، خون کے دھبے گلاب کی پتیوں کی طرح ہوں گے، اور فرشتے آپ کی روحوں کو لینے کے لیے آئیں گے"۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ حافظ سعید لشکرِ طیبہ کے بانی اور چیف ہیں۔

نواز شریف نے کوئی نیا انکشاف نہیں کیا، حکومتِ پاکستان اور عمران خان ان سب باتوں کا اعتراف ماضی میں کر چکے ہیں۔

2008 میں اُس وقت کی پی پی پی کی حکومت نے ان میں سے زیادہ تر باتوں کا اعتراف کر لیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب پی پی پی نوازشریف سے کہہ رہی ہے کہ وہ اپنا بیان واپس لیں۔ مؤقف کی قلابازی کھانے والوں میں فوجی قیادت کی آنکھوں کا تارا عمران خان بھی شامل ہے۔ عمران خان ماضی میں قطعی لہجے میں کہا کرتے تھے کہ ان جہادیوں کو فوج کی پشت پناہی حاصل ہے۔



تاہم ایک اہم سوال جو گذشتہ عشرے کے دوران سامنے آیا، اور جو ممبئی حملوں کے ٹرائل میں بھی پوچھا گیا، وہ یہ تھا کہ کیا پاکستان کے حاضر سروس سرکاری افسران بھی دہشتگردی کے ان حملوں میں ملوث تھے؟

کیا آئی ایس آئی کے افسران اس میں ملوث تھے؟ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

اگرچہ حاضر سروس افسران کے ان حملوں میں شریک ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں لیکن مختلف ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی کے کچھ ریٹائرڈ افسران ان حملوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل (ر) شجاع پاشا نے اُس وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی سے کہا تھا کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے "ہمارے لوگ" تھے، لیکن یہ "ہمارا آپریشن" نہیں تھا۔ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اطہر عبّاس نے بھی کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے کچھ سابق لوگ ان حملوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

اب سابق فوجی اور انٹیلی جنس چیفس کے بیانات، عالمی واچ ڈاگ، موجودہ حکمران جماعت اور بلاشبہ جنوبی ایشیا کے واقعات کی دستاویزی تاریخ پاک فوج کے کچھ دھڑوں کے لشکرِ طیبہ کے ساتھ روابط کو ضرور ظاہر کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ریاست ان جہادی گروہوں کی سرگرمیوں کے پیچھے نہیں تھی تو بھی اس نے انہیں خطے میں فعال ہونے کی اجازت تو دی ہوئی تھی۔




نوازشریف کا ڈان کو دیئے گئے انٹرویو کا سب سے اہم حصہ

ڈان کو دیئے گئے انٹرویو میں نوازشریف نے جو سب سے اہم بات کہی وہ یہ تھی : "انتہا پسند تنظمیں فعال ہیں۔ آپ اُنہیں غیر ریاستی عناصر کہہ لیں۔ کیا ہمیں اُنہیں اجازت دینی چاہیے کہ وہ سرحد پار کر کے ممبئی میں ایک سو پچا س افرادکو ہلاک کر دیں؟"

"کیا ہمیں اُنہیں اجازت دینی چاہیے؟" یہ ایک سوال تھا، لیکن اسے ہر وقت طاق میں رہنے والے بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا، اور دعویٰ کیا کہ پاکستان نے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان میں کچھ ترقی پسندوں تک نے اس کا یہی مطلب لیا کہ نواز شریف نے ریاست پر الزام لگایا ہے۔

ڈان لیکس کے معاملے پر بھی ڈان سرخرو

یہی بات اُنہوں نے 2016 میں کی تھی، جو ڈان لیکس کی صورت باہر آئی۔ اُس وقت بھی اُنہوں نے کہا تھا کہ جہادی گروہوں کے فوج کی چھتری تلے ہونے کے تاثر سے پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ اور اس بات کا اعتراف سابق فوجی افسران نے بھی کیا تھا۔

لیکن جب اُن حقائق، جنہیں نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ خود ملک کے اندر بھی تسلیم کیا جاتا ہے، کا اعتراف کرنے کو غداری سے تعبیر کیا جائے اور فوج نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلا کر مذمت کی جائے تو انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ملک میں جہادی گروہوں کے بارے میں کس قدر فکری جمود پایا جاتا ہے۔



ممکن ہے نوازشریف عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں لیکن اُن کے الفاظ وزن رکھتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ نوازشریف فوج پر تنقید کرتے ہوئے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں لیکن جب تین مرتبہ وزارتِ اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے اور تین عشروں پر محیط سیاسی کریئر رکھنے والے شخص کی بات کو بغاوت قرار دیا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ فوج کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی حقائق کی تردید کی روایت کتنی توانا ہے۔

اسی اسٹبلشمنٹ کی قیادت اپنے ہی بیانیے کی متعدد بار تردید کر چکی ہے، اور ہر بار اس کی بات کو حرفِ آخر مانا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پراپیگنڈا اور اجتماعی سوچ کو کنٹرول کرنے کا عمل کس قدر مؤثر ہے۔ کٹھ پتلیوں کی طرح فکری غلامی کرنے والے اشارہ پاتے ہی کسی پر بھی غداری کا الزام لگا کر اُس کا جینا حرام کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ مقامی میڈیا کا بزدل اور بے سمت ہونا بھی ہے۔

مصنف لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی جریدوں کے لئے لکھتے ہیں۔