سرل المیڈا اور پرویز رشید: ڈان لیکس کے دو کردار جن کی آزمائش کبھی ختم نہ ہوئی

سرل المیڈا اور پرویز رشید: ڈان لیکس کے دو کردار جن کی آزمائش کبھی ختم نہ ہوئی
پاکستان  کی تاریخ میں کئی ایسے مواقع بھی رہے ہیں جنہوں نےپاکستان کے حکومتی و سیاسی خدو خال پر زبردست اثر چھوڑا۔  ان میں سے کچھ تو کھلے عام عوام کے سامنے وقع پذیر ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ طاقت کے ایوانوں کے دبیز پردوں کے پیچھے ہوتی ہیں۔ ایسے خفیہ واقعات میں  حالیہ تاریخ میں سے سب سے اہم واقعہ ڈان لیکس کا واقعہ ہے۔ اس سارے واقعے نے جہاں ن لیگ کی حکومت کے لیئے مسائل کھڑے کیئے وہیں اس سے جڑے دو ایسے کردار بھی  ہیں جن کے لیئے ڈان لیکس کا یہ سکینڈل سب سے بھاری ثابت ہوا۔ ان کرداروں میں سے ایک ہیں ڈان لیکس کے راقم صحافی سرل المیڈا اور دوسرے سینیٹر پرویز رشید۔ ان میں سے سرل المیڈا صحافت ہی کو خیر باد کہہ چکے ہیں جبکہ پرویز رشید ابھی ستم حکمراں برداشت کر رہے ہیں۔

ملک کے سینئر صحافی حامد میر نے اس حوالے سے ایک خصوصی منظر نامہ تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اکتوبر 2016میں انگریزی اخبار ڈان نے صفحہ اول پر ایک خبر شائع کی جسے سیرل المیڈا نے لکھا تھا۔ اس خبر کے مطابق کچھ عالمی طاقتوں کی طرف سے پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالا جا رہا تھا کہ بعض کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ اس خبر سے ڈان لیکس اسکینڈل نے جنم لیا۔

نواز شریف حکومت کے ایک وزیر نے حکومت کو اس مشکل سے نکالنے کے لئے پرویز رشید سے قربانی مانگی اور جمہوریت کے اس بےتیغ سپاہی نے کوئی بحث کئے بغیر وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے پرویز رشید سے شدید اختلاف کیا۔

میرا موقف یہ تھا کہ اس قربانی کے باوجود آپ کے وزیراعظم کو حکومت سے نکال دیا جائے گا، آپ کو اپنا بھرپور دفاع کرنا چاہئے تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے پرویز رشید اور عطاء الحق قاسمی کے خلاف ایک فیصلہ دلوایا گیا جس کا مقصد پرویز رشید کے کردار پر ایک ناکردہ گناہ کا داغ لگانا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف پرویز رشید نے نظرثانی کی درخواست دائر کی جس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

2021میں سینیٹ کا الیکشن قریب آیا تو اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ پرویز رشید کو سینیٹ کا الیکشن لڑنے دیا جائے گا یا نہیں؟ اس بحث کی وجہ سیرل المیڈا کا صحافت چھوڑ جانا تھا۔

وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن سیرل المیڈا کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ انہوں نے صحافت چھوڑ دی۔ اسلام آباد کے بہت سے شکی مزاج صحافیوں کا خیال تھا کہ پرویز رشید کو پھر سے سینیٹر نہیں بننے دیا جائے گا۔

پاکستان کو ہر قسم کے حالات میں پازیٹو سائیڈ سے دیکھنے کے حامی کچھ دوست کہتے رہے کہ پرویز رشید اتنے اہم نہیں کہ کوئی ریاستی ادارہ اُن کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اُنہیں سینیٹ میں جانے سے روک دے۔ افسوس کہ آخر میں شکی مزاج صحافیوں کی رائے درست نکلی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک ایسے دعوے کی بنیاد پر پرویز رشید کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے جو کسی مذاق سے کم نہیں۔

حامد میر نے تو جو تفصیل بیان کی وہ کی ہی۔ لیکن یہ امر اپنی جگہ موجود ہے کہ ان دنوں اصحاب کی آزمائشیں شاید کم نہیں ہوئیں۔