پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی دعوت پر آج اسلام آباد کے زرداری ہائوس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین گرینڈ افطار ڈنر پر یکجا ہو رہے ہیں، اپوزیشن رہنمائوں کا یہ اکٹھ موجودہ حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی تشکیل کا باعث بن سکتا ہے۔ اس افطار ڈنر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز پہلی بار ملاقات کر رہے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں یہ ملاقات نہایت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
افطار ڈنر کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں جب کہ مریم نواز بھی پارٹی کے دیگر سینئر رہنمائوں کے ساتھ جلد زرداری ہائوس پہنچ جائیں گی۔
ڈان نیوز نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے وفد میں مریم نواز کے علاوہ پارٹی کے نائب صدر حمزہ شہباز، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور سینئر رہنماء پرویز رشید شامل ہیں۔
یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اپوزیشن کو یکجا کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفندیار ولی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور مذہبی رہنماء شاہ اویس نورانی نے بھی اہم کردار کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا افطار ڈنر اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ جرگہ ثابت ہو سکتا ہے جس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے سمیت مستقبل کا سیاسی لائحہ عمل طے کیے جانے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری فرحت اللہ بابر نے اگرچہ کھل کر یہ نہیں کہا کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے درمیان ملاقات کا کوئی ایجنڈا طے ہے تاہم انہوں نے یہ عندیہ ضرور دیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے رابطے بڑھانا چاہتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے افطار ڈنر میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاہم وہ کراچی میں اپنی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہو رہے۔
واضح رہے کہ مریم نواز ایک ایسے وقت میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت سے ملاقات کرنے جا رہی ہیں جب ان کے والد اور پارٹی قائد نواز شریف جیل میں پابند سلاسل ہیں جب کہ چچا اور پارٹی کے صدر شہباز شریف لندن میں مقیم ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ افطار ڈنر مستقل کے سیاسی منظرنامے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتا ہے جس میں موجودہ حکومت کی مختلف پالیسیاں کا ناقدانہ جائزہ لینے کے علاوہ مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے پر بھی غور ہو سکتا ہے جب کہ بعدازاں میڈیا کو بریفنگ بھی دی جائے گی۔