تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا۔ آخر کار جہانگیر ترین گروپ کا سر عام اعلان ہو ہی گیا اور وہ تمام خوش فہمیاں کہ ترین گروپ اور عمران خان میں بالآخر کوئی مفاہمت ہو ہی جانی ہے، دم توڑ گئیں۔
جہانگیر ترین گروپ میں اس وقت 30 اراکین ہیں اور اب اس گروپ نے اپنے قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈران کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ یہ اہم اعلان جہانگیر ترین کی جانب سے اراکین اسمبلی کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں کیا گیا۔ ہم خیال گروپ نے راجہ ریاض کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مقرر کر دیا ہے جبکہ سعید اکبر نوانی پنجاب اسمبلی میں قیادت کریں گے۔ رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض کا کہنا ہے کہ مزید 8 رکن صوبائی اور قومی اسمبلی ہمارے ساتھ مل چکے ہیں لیکن ابھی ان کا نام سامنے نہیں لایا جائے گا۔
کچھ عرصہ قبل تک جہانگیر ترین عمران خان کے قریب ترین ساتھی تھے۔ ان کے جہازوں میں بھر کر آزاد امیدواروں کو پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت کے لئے لایا جاتا تھا۔ اس وقت PTI کے سپورٹر انہیں بڑا پسند کرتے تھے۔ انہیں پیارے پیارے القابات دیتے تھے، عمران خان کا بہترین دوست کہا کرتے تھے۔
پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ عمران خان کا یہ قریبی دوست ان کی نئی اہلیہ بشریٰ بی بی کو پسند نہیں آیا۔ اپنے 9 اپریل 2020 کے بی بی سی کے لئے لکھے گئے کالم میں معروف صحافی سہیل وڑائچ نے لکھا کہ خان اور ترین کے درمیان فاصلے اس وقت بڑھے جب دونوں خاندانوں کی خواتین میں بن نہ سکی۔ اس کی ایک وجہ فرسٹ لیڈی کی روحانی کرامات کے حوالے سے ترین خاندان کی خواتین کی غیر محتاط گفتگو بھی بتائی جاتی ہے۔
مارچ 2018 میں انگریزی اخبار دی نیوز میں شائع ہونے والی عمر چیمہ کی ایک خبر کے مطابق جہانگیر ترین نے عمران خان کو ان کی شادی کی مبارکباد نہیں دی تھی جس کا عمران خان کو افسوس تھا۔ اس پر عمران خان ایک بار ان سے بات بھی کر چکے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد عمران خان نے ایک مرتبہ پھر فون کرکے ترین سے شکایت کی کہ انہوں نے شادی پر مبارکباد نہیں دی اور پھر یہ بات کہی کہ یہ کام الیکشن میں کامیابی کیلئے کیا ہے۔ ترین کا کہنا تھا کہ کوئی ٹیلی فونک تبادلہ نہیں ہوا بلکہ انہوں نے مجھے میسیج بھیجا تھا۔ ’’چاہے جو بھی، یہ نجی میسیج تھا اور مستقبل کے الیکشنز کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا۔‘‘
بعد میں ترین کی بشریٰ بی بی کے ساتھ ولیمہ کے دوران بالمشافہ بات چیت ہوئی۔ تقریب میں شامل ایک شخص کے مطابق، جس وقت عمران خان اپنی بیگم کو مہمانوں سے ملوا رہے تھے اس وقت ترین کے ساتھ تعارف کے موقع پر بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ ’’میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں کوئی جادوگرنی نہیں ہوں۔‘‘ ایک اندرونی ذریعے نے کہا کہ ترین کے ان کے بارے میں خیالات مختلف تھے اور بشریٰ چاہتی تھیں کہ انہیں اس بارے میں علم ہو کہ وہ جانتی ہیں۔
افواہیں گرم رہیں کہ جہانگیر ترین اور ان کی اہلیہ کی جانب سے کسی نجی محفل میں بشریٰ بیگم سے متعلق کچھ ایسی بات کی گئی تھی جو کسی طرح خاتون اول تک بھی پہنچ گئی۔
خیر، یہ سب تو ماضی کے قصے ہیں۔ اس وقت عمران خان کے جو سر پر آن پڑی ہے وہ تو یہ اراکین اسمبلی کی لمبی فہرست ہے جو قومی کے ساتھ ساتھ پنجاب کی صوبائی حکومت بھی گرانے کے لئے کافی ہے۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جو جہانگیر ترین عمران خان کے لئے اراکین بھر کر لایا کرتے تھے، اب وہ اراکین بھر کر لے جا رہے ہیں۔ یہی ہوتا ہے جب آپ اپنی سیاست بینظیر بھٹو صاحبہ کے الفاظ میں چمک کی بنیاد پر اٹھاتے ہیں۔
کیا گروپ کا مقصد قومی اور پنجاب حکومتیں گرانا ہے؟
یوں تو گروپ کے ایک رکن نعمان لنگڑیال کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ساتھ دیں گے۔ لیکن حقائق کچھ اور بتا رہے ہیں۔ جمعے کے روز سینیئر صحافی نجم سیٹھی نے اپنے ہفتہ وار کالم میں لکھا کہ مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور جہانگیر ترین گروپ آنکھ کے ایک اشارے کے منتظر ہیں اور وہ بجٹ کو پاس ہونے سے روک سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی یا کسی بھی صوبائی اسمبلی میں بجٹ کا پاس نہ ہونا دراصل حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے برابر ہے۔ عمران خان صاحب بجٹ پاس کروانے میں ناکام ہوئے تو یہ صرف اس وقت تک کے مہمان ہوں گے جب تک کہ قومی اسمبلی ایک نیا قائد نہ منتخب کر لے۔ کچھ ایسا ہی پنجاب اسمبلی میں بھی ہو سکتا ہے۔
بلوچستان حکومت کی حالت بھی پتلی ہے
یاد رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں سپیکر عبدالقدوس بزنجو اور وزیر اعلیٰ جام کمال کے درمیان تعلقات پہلے دن سے خراب ہیں لیکن اب صورتحال اس نہج پر آ چکی ہے کہ دونوں گروپوں میں صلح کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں حکومت کے پاس گو 35 اراکین کے ساتھ چھ دیگر اراکین کی حمایت بھی موجود ہے لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی یا جمہوری وطن پارٹی کا کوئی پتہ نہیں کب ساتھ چھوڑ دیں۔ یوں بھی یہ صرف حکومت کی حمایت کر رہی ہیں، اس کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر باپ کے اندر سے اراکین کا ایک گروپ ٹوٹ کر دوسری طرف جا ملتا ہے تو 65 اراکین کی چھوٹی سی اسمبلی میں بازی پلٹتے دیر نہیں لگے گی۔ یوں بھی باپ کے کچھ اراکین استعفوں اور بجٹ سیشن کے بائیکاٹ پر غور کر ہی رہے ہیں۔
تو صورتحال کچھ ایسی بن رہی ہے کہ قومی اسمبلی کے علاوہ ملک کے چار میں سے دو صوبوں کا بجٹ پاس ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
کیا یہ سارا میلہ شہباز شریف کے لئے سجایا جا رہا ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ پاس نہ ہوا اور کسی نے عمران خان کی جگہ نہ لی تو کیا ہوگا؟ یہ آپ نجم سیٹھی کی رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ سوموار کو ہوئی گفتگو کے اس حصے سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1394361679601881089
ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔ بنگلہ دیش ماڈل، یا پھر براہِ راست اقتدار۔ اب اتنا شاندار میلہ اگلوں نے شہباز شریف کے لئے تو لگایا نہیں۔ جنہوں نے میلہ لگایا ہے، لوٹیں گے بھی تو وہی نا۔