کشمیر کے مقتل سے ایک خط اور ہماری ترجیحات

کشمیر کے مقتل سے ایک خط اور ہماری ترجیحات
تحریک آزادی کی شمع کو جلائے رکھنے کے لیے خون کا نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ جان، مال اور آبرو داؤ پر لگانی پڑتی ہے۔ بعض اوقات نسل در نسل چکی کے دو پاٹوں میں پسنا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کشمیر میں ظلم کی اندوہناک داستانیں رقم ہو رہی ہیں، ظلم ایسا کہ ناقابل بیان اور شجاعت کی مثالوں سے اوراق مزئین ہیں۔ شہدا کی ایک لڑی ہے جن پر ہماری آنے والی نسلوں کو ہمیشہ فخر رہے گا۔

گذشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان کو موصول ہونے والے خط میں راقم سید علی گیلانی نے گذشتہ 100 دنوں سے کشمیر پر ٹوٹنے والے قیامت خیز مظالم کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ خط میں کہا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر میں مظلوم کشمیری مضبوط اعصاب کے ساتھ بھارت کی جابر و ظالم فوجی قوت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ سید علی گیلانی کے خط کا وہ جملہ اکثریت کو ششدر کر دینے کے لیے کافی ہے۔ جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ”ہوسکتا ہے یہ میرا آپ کو آخری خط ہو“۔ علی گیلانی جیسی قیادت کشمیر میں پاکستان کی پوشاک تھی۔ یہاں گیلانی کے چہرے کی بزرگی کو پاکستان کی محبت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ گیلانی عمر رسیدہ ہوئے ہیں بوڑھے نہیں۔ حوصلہ اب بھی جوان ہے۔

حالات جیسے بھی ہوں وہ کشمیر کے مقتل میں نوجوانوں کے لیے ایک صبر و ہمت کی علامت ہیں۔ وہ شاید چند غیرملکی پاکستانیوں میں سے ہیں جو ہندوتوا بھارتی سامراج کے گماشتوں کی زہرآلود سیاست کو باریک بینی سے جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم میں سے کسی نے بھی گیلانی صاحب کو کبھی بھی ناامید نہیں پایا۔ انھیں پاکستان سے محبت کی پاداش میں خوفناک مظالم سہنے پڑے۔ 1980 سے گیلانی الزامات کی زد میں رہے۔ ایسے خوفناک مظالم برداشت کیے جن کی مثال ملنا مشکل ہے۔

آج آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد گرفتار شیخ عمر عبداللہ و فاروق عبداللہ نے آزادی و ہندوستان مخالف نعروں کی پاداش میں پہلی بار گیلانی کو 1981 میں پابند سلاسل کروایا تھا۔ یکے بعد دیگرے، گیلانی کو مفتی خاندان، شیخ عبداللہ خاندان اور دیگر ہندوستان دوست قوتوں نے ہمیشہ اپنے مظالم کا شکار بنائے رکھا۔

پھر تاریخ نے دیکھا کہ ہندوستان دوست کشمیری قوتوں نے کبھی غداری و پھر دہشتگردی جیسے جھوٹے الزامات لگا کر کشمیر کی حریت قیادت کو ہمیشہ اذیت سے دوچار کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام ہوئے۔

موجودہ وفاقی حکومت کے عملی اقدامات کی کوئی قابل ذکر فہرست ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ ایک محکوم قوم دوسری محکوم قوم سے فرمائش کے علاوہ کیا کرسکتی ہے، کشمیریوں نے وہی کیا۔ مگر ادھر دشمن کو چاروں شانے چت کر دینے والی اس خوابیدہ قوم کو اغیار کے چنگل میں پھنسے اپنے سے انتہائی کمزور قوم کی غمگساری کا ادراک نہیں۔

افسوس صد افسوس! یہ حوادث نہیں ہمارے اپنوں کے رچائے ہوئے تماشے ہیں۔ زینہ حریت پر کھڑی قوم کا اندازہ لگایے کہ یہاں ہر انسان اپنی حریت کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ ایک بڑی قوم کا انداز فکر مختلف ہونا چاہیے مگر خود کو عالمگیر اسلامی قوت کہنے والی قوم کے حیلوں و بہانوں کا تماشہ تھمنے کا نا م نہیں لیتا۔ ادھر ہمیں تھپکی دی گئی کہ محاذ استقلال و جرات پر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ خون دیجیے، عزتیں نیلام کروا دیجیے، مقتل کو آباد کیجیے، محکوم رہیے مگر جھکنا نہیں۔ آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ حالات بدلیں گے۔ راستے صاف ہوں گے اور پھر ہی سری نگر کے لال چوک کی چوکھٹ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرائے جا سکے گا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ریاست کا مطلب ملت واحد ہے۔ یہاں اسلام کے سالار و معمار آباد ہیں۔ وہ آپ کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک رہیں گے۔ مگر حالات بدلے تو راز کھلا، ہم تنہا تھے۔ راستہ کٹھن تھا۔ دردناک طویل راتیں ہماری راہ تک رہیں تھیں۔ یہ فیصلہ کن نہیں فاصلہ رکھنے کا دور تھا۔ امت دو راستوں میں تقسیم تھی۔ ادھر دوسرا حصہ آزاد کشمیر تھا جو بظاہر آزاد لیکن درحقیقت لسانیت و گروہ پسندی کا سرکس تھا۔ ادھر جہالت اپنے عروج پر تھی۔ یہ دنیا کا واحد خطہ ہے۔ جہاں لوگ نظریہ ملت اور وقار جیسی زندگی سے نابلد ہیں۔ یہاں کی سیاست و صحافت چند کوڑیوں کی محتاج ہے۔ کے ایچ خورشید کی وفات کے بعد سے ہی لوگ ان ٹھگوں سے لٹتے رہے ہیں۔ یہ ہماری تحریک آزادی کا بیس کیمپ تھا۔ اندازہ لگائیے ہم نے شہدائے کشمیر کے خون کی کیسے بے حرمتی کی۔

جہالت و محکومی بڑھتی رہی لیکن ہم وفاق کے غیر مشرو ط حمایتی رہے۔ آزادکشمیر کی صورت حال پر لکھتے دل دکھتا ہے اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے کو جی چاہتا ہے۔ ہمیں اب وفاق کو خط لکھنا چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ اب وفاق خود محکوم ہے۔ وہاں کی سیاست، صحافت، انصاف و حکومت کی رکھ چکری و انتظام غیر جمہوری قوتیں جمہور کے ایما پر چلارہی ہیں۔ سید علی گیلانی کا وہ خط جس میں کہا گیا کہ ہماری خواتین ہندوتوا دہشتگردوں کی ناپاک نظروں کے اعتاب میں ہیں۔ ادھر فکرمند ہونے کے کوئی آثار نہیں ملے۔ یہاں روز مولیسٹنگ ہوتی ہے۔ ہم ہر زاویہ نگاہ سے محکوم قوم سے مدد مانگ رہے ہیں۔

شاید آپ کی وزیراعظم پاکستان سے پرزور اپیل کہ ہندوستان سے معاہدہ ایل او سی ختم کیا جائے ایک خواہش ہی ہے اور وہ یہ خواہش نہیں مانیں گے کیونکہ معاہدے کے اختتام پر انھیں ایک عدد جنگ لڑنا پڑے گی۔ جس کی انھیں ضرورت نہیں۔

لکھاری آزاد جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ چھ سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں