کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے عوام حل کر سکتے ہیں

کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے عوام حل کر سکتے ہیں
واحد مسئلہ جس نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہت زیادہ تناؤ پیدا کیا ہوا ہے وہ جموں و کشمیر کا تنازع ہے۔ اس معاملے پر دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور کچھ حاصل نہ ہوا۔ پہلی جنگ 1947 میں شروع ہوئی جسے پہلی کشمیر جنگ کہا جاتا ہے۔ جب یہ دونوں ممالک دنیا کے نقشے پر نئے سرے سے پیدا ہوئے تھے۔ دونوں ملک نہ تو معاشی طور پر مضبوط تھے اور نہ ہی اندرونی طور پر، لیکن انہوں نے ریاست پر قبضہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے جنگ کی۔

کشمیری عوام پاکستان کی حمایت میں تھے۔ وہ نو تشکیل شدہ اسلامی ملک میں شامل ہونا چاہتے تھے اور اپنی زندگی آزادانہ اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق گزارنا چاہتے تھے لیکن حکمران ہندوستان کے حق میں تھا۔ وہ ہندو تھا اور اس کا خیال تھا کہ اگر وہ ہندوستان میں شامل ہو جائے گا تو اسے تخت سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ دونوں ملکوں کو بہت سے جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور جنگ کے بعد بھی اس مسئلے کا کوئی حتمی حل نہ نکل سکا۔ کشمیر کا کچھ علاقہ پاکستانی فوج نے فتح کر لیا تھا جبکہ دوسرے پر بھارتیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ 1965 میں ایک مرتبہ پھر دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف لڑے۔ بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور فیروز پور کے راستے لاہور پر قبضہ کرنا چاہا لیکن ناکام رہے۔ پاکستانی فوج نے انہیں شکست دی اور لاہور کو محفوظ بنایا۔ اسی طرح اس جنگ میں انہیں کچھ نہیں ملا لیکن معاشی اور سفارتی بحران پیدا ہونے کے علاوہ دونوں طرف سے بہت سے فوجی مارے گئے اور عام شہری بھی متاثر ہوئے۔

بعدازاں 1999 میں بھارتیوں نے پورے گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے لیے کارگل پر حملہ کر دیا لیکن ایک بار پھر پاکستانی فوج نے اپنے عوام کی حفاظت کے لیے پوری جانفشانی سے جنگ لڑی اور جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ان علاقوں کو محفوظ کر لیا۔ اس تیسری جنگ کے بعد نتائج وہی نکلے جو پہلے نکلتے تھے یعنی دونوں ملکوں کو خونریزی اور بہت سے بحرانوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ تو یہ واضح ہے کہ جموں و کشمیر کا کوئی جنگی حل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف تین بار لڑ چکے ہیں اور کبھی ریاست پر مکمل قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور نہ ہی جنگ کے ذریعے تنازعے کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کر سکے ہیں۔

جموں و کشمیر کے مسئلے کا واحد حل بات چیت ہے۔ دونوں ملکوں نے 3 بار اسلحے اور لڑائی کے ذریعے جموں و کشمیر کو فتح کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف مزید نفرت اور مزید تباہی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے کیونکہ خون بہائے بغیر اس معاملے کو مکمل طور پر حل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔

ہم سے پہلے کئی دوسرے ملکوں نے اپنے علاقائی تنازعات کو بات چیت اور معاہدوں کے ذریعے حل کیا ہے۔ امریکہ اور میکسیکو نے چمزال تنازعہ 14 جنوری 1964 کو بات چیت اور ایک معاہدے کے ذریعے حل کیا تھا۔ یہاں وہ جنگ کے ذریعے حل تلاش کر سکتے تھے لیکن ظاہر ہے اس کے لیے بہت زیادہ خون بہانا پڑتا اس لیے انہوں نے یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا۔

اسی طرح برکینا فاسو اور مالی نے بھی بات چیت کے ذریعے آگچر کی پٹی کا تنازعہ طے کیا۔ ابتدائی طور پر ان کے درمیان ہندوستان اور پاکستان کی طرح کئی فوجی جھڑپیں ہوئیں لیکن کبھی بھی تنازعہ کا کوئی حل نہ نکل سکا۔ آخر کار بین الاقوامی عدالت انصاف نے 1986 میں اس مسئلے کو پرامن طریقے سے مکمل طور پر حل کر دیا۔

ہندوستان اور پاکستان کی علیحدگی سے پہلے ہندوستانی اور پاکستانی ایک ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے ماضی میں برطانوی راج کے دوران اپنے درمیان بہت سے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا اور برطانوی راج کے خلاف بھی اجتماعی طور پر آواز اٹھائی۔ دونوں اچھی طرح ایک دوسرے کو بھی جانتے ہیں اور اپنی ثقافتوں سے بھی واقف ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں انگریزوں کے خلاف ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کو استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کے لیے اس فارمولے کو دوبارہ مثبت نکتے کے طور پر استعمال کیا جائے۔

بھارت اور پاکستان دونوں جنگ کے نتائج سے واقف ہیں کیونکہ اب ان دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور جب دو ایٹمی ریاستیں لڑیں گی تو کوئی نہیں ہارے گا۔ جیت صرف تباہی کی ہوگی۔ اس سے پورے خطے کا توازن بگڑ سکتا ہے اور جنوبی ایشیا کے برے سکیورٹی حالات باقی دنیا پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اب یہ ہندوستان اور پاکستان کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کہ وہ اس مسئلے کو بات چیت اور خاص طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کریں۔ دونوں طرف کے عوام کو چاہئیے کہ اپنے اپنے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ دونوں ملکوں کو جنگ اور نفرت سے نجات دلا کر ترقی کے راستے پر ڈالیں اور مستحکم ہوں۔

خلیق زیب فارمن کرسچیئن کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہیں اور اب قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔