5 سے 7 لاکھ گیلن گندا پانی روزانہ بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں ڈالا جا رہا ہے

5 سے 7 لاکھ گیلن گندا پانی روزانہ بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں ڈالا جا رہا ہے
صنعتی شعبہ کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم پاکستان سمیت چند ممالک ایسے ہیں جہاں صنعتی فضلے کو بغیر کسی ٹریٹمنٹ پلانٹ میں سے گزارے سیدھا سمندر برد کیا جا رہا ہے۔ اس سے پاکستان خود صنعتی آلودگی کا شکار ہے اور مختلف ماحولیاتی مظاہر کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہر دن بڑی تعداد میں بلدیاتی، صنعتی اور زرعی فضلہ آبی ذخائر میں پھینکا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مختلف قسم کے ماحولیاتی خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔

صنعتی فضلے کے سب سے زیادہ تباہ کن اثرات میں سے ایک پانی کی آلودگی ہے۔ صنعتی گندے پانی میں مختلف قسم کے مرکبات اور زہریلے کیمیکلز پائے جاتے ہیں۔ یہ خطرناک مضر نامیاتی مرکبات یعنی کیمیکلز اور بھاری دھاتیں جیسے غیر نامیاتی مرکبات ہوتے ہیں جو نازک آبی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ دھاتیں کافی زہریلی ہوتی ہیں۔ اگر یہ فوڈ چین میں شامل ہو جائیں تو انسانی صحت کے لیے شدید نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ اسی طرح کان کنی اور خاص طور پر تھرمل پاور پلانٹس اور اوپن کاسٹ کوئلے کی کانوں میں استعمال ہونے والا پانی بھی آس پاس کی نالیوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

صنعتی آلودگی کو روکنے کے لیے مختلف ادوار میں حکومتوں نے قانون سازی کی مگر ابھی تک ان قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق کراچی تقریباً پانچ سو ملین گیلن روزانہ کے حساب سے گندا پانی پیدا کرتا ہے۔ تقریباً پانچواں حصہ صنعتوں سے جبکہ باقی گھریلو یا بلدیاتی نکاس سے خارج ہوتا ہے۔ تقریباً تمام تر گھریلو یا صنعتی گندا پانی سمندر کا حصہ بننے سے پہلے صاف نہیں کیا جاتا اور اسی طرح سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جو آفت کا باعث ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے 2017 میں ایک ازخود نوٹس لیا جس میں 70 فیکٹری مالکان کو جرمانے کئے گئے۔ 70 فیکٹریاں صنعتی فضلہ بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹس کے نالوں میں چھوڑ رہی تھیں۔ ایسے بہت سارے واقعات ہیں جن پر جرمانے اور سزائیں ہونے کے باوجود اب بھی صنعتی فضلہ صاف کئے بغیر نالوں میں چھوڑا جا رہا ہے۔ اسی طرح قانون کے مطابق صنعتی یونٹوں کے مالکان صنعتی فضلے کے ٹریٹمنٹ کے ذمہ دار ہیں اور ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر صنعتی فضلے کے پانی کو مناسب طریقے سے نالوں میں چھوڑنے کے بھی ذمہ دار ہیں۔

کراچی کے 6 اضلاع ہیں اور یہاں دو بڑے صنعتی مراکز ہیں؛ سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ (S. I.T.E) اور کورنگی انڈسٹریل ایریا (K.I.A)2001 میں سائیٹ ایریا بلدیاتی حکومت کے ماتحت تھا۔ جب بلدیاتی حکومت کے ماتحت چل رہا تھا تب تک نکاسی آب اور ندی نالوں کی صفائی یومیہ بنیادوں پر باقاعدگی سے کی جاتی تھی جس کے لئے باقاعدہ ایک مخصوص رقم ان تمام کمپنیوں اور کارخانوں سے وصول کی جاتی تھی۔

2001 کے بعد صنعی مراکز صوبائی حکومت کے ماتحت کام کرنے لگے جس سے نکاسی آب کا جو طریقہ کار تھا وہ متاثر ہوتا گیا اور اب گزشتہ 21 سال سے ان نالوں کی صفائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اکثر نالوں کا پانی سائیٹ ایریا کی سڑکوں پر آ جاتا ہے جس سے انسانی صحت کے لئے مزید خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔

سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ سٹیٹ کے سیکرٹری انفارمیشن احمد رضا نے بتایا کہ کراچی کے ان دو بڑے صنعتی مراکز میں تقریباً 450 کمپنیاں موجود ہیں جن میں زیادہ تر کمپنیاں ادویات بناتیں ہیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر انجینیئر ذاکرعلی خان کا کہنا ہے کہ 'ایک دن میں ساڑھے تین سو ملین گیلن گندا پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں پھینکا جا رہا ہے کیونکہ شہر میں فی الحال کوئی ٹریٹمنٹ پلانٹ کام نہیں کر رہا۔ دو نئے ٹریٹمنٹ پلانٹ زیر تکمیل ہیں۔ ان میں سے ایک پلانٹ ماڑی پور میں اوردوسرا پلانٹ سندھ انڈسٹریل سٹیٹس یعنی سائٹ کے علاقے میں تکمیل کے مراحل طے کررہا ہے۔'

ذاکر علی خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'محمود آباد اور کورنگی میں بھی ایک، ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ پہلے سے موجود ہے۔ لیکن یہ دونوں فی الحال غیر فعال ہیں۔'

ہم نے شہر کے مختلف علاقوں میں سروے کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ شہر میں 2 ندیاں، 13 بڑے اور 250 کے لگ بھگ چھوٹے برساتی نالے ہیں جن کے ذریعے شہر بھر کا سیوریج، گٹر کا پانی، اسپتالوں اور فیکٹروں کا کچرا اور انسانوں و جانوروں کا فضلہ وغیرہ بلا روک ٹوک سمندر میں گرایا جا رہا ہے۔ درمیان میں کوئی بھی ٹریٹمنٹ پلانٹ ایسا نہیں جو اس کچرے کو سمندر میں جانے سے روک سکے۔

The Ocean Clean Up نامی ایک عالمی ویب سائٹ نے کراچی کے حوالے سے ایک نقشہ جاری کیا ہے جس میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ ہر ماہ کراچی لیاری ندی کے ذریعے 21 لاکھ 82 ہزار کلو اور کورنگی ندی سے 2 لاکھ 22 ہزار کلو پلاسٹک کچرہ بحیرہ عرب میں ڈالا جا رہا ہے۔ نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی کے ان صنعتی علاقوں میں 104 کے قریب چھوٹے بڑے ندی نالے موجود ہیں جس میں ان کے کارخانوں اور کمپنیوں کا پانی آتا ہے۔ ان 104 ندی نالوں کا پانی گزرتا ہوا کراچی کے دو بڑی اور اہم ندیوں یعنی لیاری ندی اور ملیر ندی میں آتا ہے۔ ان ندیوں میں روزانہ 7 لاکھ گیلن پانی داخل ہوتا ہے۔

The Ocean Clean Up کا جاری کردہ نقشہ


صنعتی علاقوں کی ندیوں سے آنے والا پانی انتہائی زہریلا ہوتا ہے۔ یہ پانی ملیر اور لیاری ندی کے ذریعے بحیرہ عرب کے سمندر میں داخل ہوتا ہے اور پھر وہاں سے (Indian Ocean Garbage patch) یعنی بحیرہ ہند کے کچرے کے ڈھیر کے ساتھ مل کر سمندر کو مزید گندہ کر دیتا ہے۔

2011 میں ایبٹ آباد یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس سے وابستہ کچھ طلبہ اور ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد کے طلبہ نے مل کر اپنے جریدے میں لکھا کہ کراچی میں مجموعی طور پر ندی نالوں کی تعداد تقریباً 550 کے قریب ہے اور اسی طرح عالمی بینک نے بھی 2017 میں مجموعی طور پر یہ تعداد 550 بتائی تھی۔

سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کے مطابق 70 ہزار ٹن کچرا اس وقت کراچی کے گنجان آباد علاقوں اور ندی نالوں میں موجود ہے۔

یورپی یونین کے مالی تعاون سے چھ سالہ منصوبے پر ماحولیاتی تحفظ کے لئے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے زیر انتظام ستمبر 2017 میں کراچی، لاہور، سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ٹریٹمنٹ پلانٹس پر کام شروع کیا گیا جو کہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر ستمبر 2023 کو مکمل ہوگا۔ اس منصوبہ کی بنیادی توجہ صنعتی فضلے میں موجود مضر صحت کیمیکلز کے استعمال کو 15 سے 20 فیصد تک کم کرنے پر ہو گی۔

اس کے بعد 25 اکتوبر 2017 کو وفاقی حکومت نے آخرکار 11.7 ارب روپے کی لاگت سے کراچی کے دو بڑے صنعتی علاقوں میں پانچ ٹریٹمنٹ پلانٹس کی منظوری دی تاہم ابھی تک ان پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں دیکھنے میں آ رہی۔

فیکٹری مالکان کی رائے اس سے خاصی مختلف ہے۔ کورنگی صنعتی علاقے میں ایک فیکٹری کے مالک اسد شاہ نے بتایا کہ زیادہ تر صنعتوں کو پانچ یا چھ دہائیاں پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور اب ان کی فیکٹریوں کے اندر ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے صنعتی فضلے کے پانی کو پروسیس کرنے کی منصوبہ بندی 2010 میں کی تھی جس میں کورنگی صنعتی علاقے میں ایک بہت بڑا ٹریٹمنٹ پلانٹ شروع ہوا تھا لیکن اب وہ بھی گزشتہ ڈھائی سال سے فعال نہیں ہے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ماحولیاتی کمیٹی کے کنوینر نعیم قریشی نے بتایا کہ جب کراچی میں 1963 میں انڈسٹریل زونز قائم کئے جا رہے تھے تو اس وقت واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے حوالے سے قانون سازی نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے حوالے سے مؤثر منصوبہ بندی بھی نہیں کی گئی۔ اب جب گذشتہ دو دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلیاں شہر پر اثرانداز ہو رہی ہے تو حکومت سیمت ہم سب یہ خیال کر رہے ہیں کہ یہ سنگین مسئلہ ہے جبکہ اس وقت کراچی کے دونوں اہم صنعتی زونز میں فیکٹریوں کی اراضی پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی جگہ ہی نہیں ہے جس سے فیکٹری اپنا صنعتی پانی ٹریٹ کرنے کے بعد چینلز میں چھوڑے۔ جبکہ حکومتی سطح پر گزشتہ دو سالوں میں شہر کے شمال اور مغرب میں دو واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے گئے تھے جس کی وقت پر مرمت نہ ہونے کے سبب اب وہ ٹریٹمنٹ پلانٹ ناکارہ ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے کئی بار شہری حکومت اور صوبائی حکومت سے میٹنگز کی تاہم کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا جس کی اہم وجہ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کا ٹھیک طریقے سے کام نہ کرنا ہے۔ اس وقت ہماری تحقیق کے مطابق شہر کے گیارہ مقامات ایسے ہیں جہاں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی ضرورت ہے تب جا کر شہر بھر سے دو ندیوں میں آنے والا صنعتی اور سیوریج کا پانی ٹریٹ کیا جا سکے گا۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی 2019 کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان صنعتوں سے خارج ہونے والے گندے پانی اور فضلے سے سب سے اہم ماحولیاتی نقصان کراچی کی ساحلی پٹی پر واقع تمر کے جنگلات کو ہو رہا ہے جن کی تباہی سے آبی حیات متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق اگر فوری طور پر غیر فعال اور نئے ٹریٹمنٹ پلانٹس نے کام شروع نہیں کیا تو اس سے پھیلنے والی تباہی کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جائے گا لہٰذا یہ مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے۔

فیصل رحمان کراچی میں مقیم ہیں اور فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ انہوں نے فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ابلاغیات عامہ کی تعلیم حاصل کی ہے اور 2013 سے شہری حقوق، انسانی حقوق اور کلائمیٹ چینج سے متعلق مختلف موضوعات پر قلم کشائی کر رہے ہیں۔