میرا بیان میڈیا پر نشر ہوا؟

میرا بیان میڈیا پر نشر ہوا؟
ذرائع کے مطابق نواز شریف نیب حراست میں کسی سیل میں قید نہیں بلکہ نیب عمارت کے اندر موجود ڈے کئیر سینٹر میں حوالاتی ہیں۔ یہ وہی ڈے کئیر سینٹر ہے جہاں ان کی دختر مریم نواز کو بھی رکھا گیا تھا۔ اسی عمارت کے اندر نیب کا انوسٹی گیشن روم بھی قائم  کیا گیا ہے۔ ڈے کیئر سینٹر کے باہر ایک بڑا لان ہے، جس میں سابق وزیراعظم کے لئے میز، کرسی اور چھتری کا انتظام ہے۔

ویب سائٹ پاکستان 24 نے ذرائع کے حوالے سے دی گئی خبر میں کہا  ہے کہ  نواز شریف صبح اور شام اپنے قید خانے سے باہر لان میں آتے ہیں اور گھنٹہ بھر چہل قدمی کرنے کے علاوہ لان میں ہی بیٹھ کر قران شریف کی تلاوت کرتے ہیں اور بعد ازاں کتب  کا مطالعہ کرتے بھی دکھائی دیتے  ہیں۔ نواز شریف کے قید خانے کے پاس ہی پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ایمرجنسی گاڑی  پارک ہے جس میں تین ڈاکٹر ہمہ وقت ڈیوٹی پر معمور رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیب کا ڈاکٹر روزانہ کی بنیاد پر سابق وزیراعظم کا بلڈ پریشر اور شوگر لیول چیک کرتا ہے۔ ڈے کئیر سینٹر کے باہر چار پولیس جوان بھی تعینات کئے گئے ہیں۔ عمارت کی چھت پر سکیورٹی کا سخت انتظام بھی رکھا گیا ہے۔ سرچ لائٹس لگا کر رات بھر فول پروف سکیورٹی کا بندوبست اس کے علاوہ ہے۔

نواز شریف پچھلے جمعے سے نیب حراست میں ہیں اور اس دوران  ان کی تاحال صرف شہباز شریف سے ایک ملاقات ہوسکی ہے۔ نیب حراست میں انہیں ٹی وی یا اخبار کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لئے  ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں سے گاہے گاہے سوالات کرتے رہتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق نوازشریف نے ایک پولیس اہلکار سے چہل قدمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا احتساب عدالت میں ان کا میڈیا نمائندوں کو دیا گیا، بیان ٹی وی چینلز اور اخباروں کی زینت بن سکا؟ اس پر اہلکار نے کہا کہ  نہیں، کچھ زیادہ کوریج نہیں ہوسکی۔

نواز شریف نے پھر پوچھا کہ کیا جیل سے لکھے گئے مولانا اور شہباز شریف کے نام ان کے خطوط کا میڈیا پر چرچا ہوا؟ اہلکار نے کہا کہ جی بالکل، ان خطوط کا میڈیا پر خوب چرچا ہوا۔ یہ سن کر نوازشریف  مسکرا دیے۔

ویب سائٹ کے مطابق سابق وزیراعظم کا کھانا روزانہ گھر سے آتا ہے جسے نیب ریسپشن پر پولیس وصول کرتی ہے، کھانا چیک کرنے کے بعد نوازشریف تک پہنچایا جاتا ہے۔ ناشتے میں زیادہ تر ڈرائی فروٹ یا پھل کھاتے ہیں، دوپہر کے کھانے کا مینئو روزانہ مختلف ہوتا ہے۔ سترہ اکتوبر کو ان کے گھر سے چکن قورمہ، کریلے گوشت، اسٹیم روسٹ، سادہ چاول، دودھ، آدھا درجن کیلے، پپیتا، انار ، دہی ، تخ ملنگا، کشمیری چائے ، لسی ، ٹوسٹ ، روٹی ، نان ، دو چمچ اور دو پلیٹیں بھجوائی گئیں۔

شام کے کھانے میں اکثر سابق وزیر اعظم پھلوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

سترہ اکتوبر کے روز نواز شریف سے مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں پنتالیس منٹ تک تفتیش کی گئی، نیب کی تین رکنی ٹیم نے نواز شریف سے چوہدری شوگر ملز اور مبینہ منی لانڈرنگ کی رقوم سے متعلق سوالا ت کئے۔ 

نواز شریف سے پوچھا گیا کہ ٹی ٹی کی رقم کس کی ہے؟

عباس شریف کے علم میں تھا، نواز شریف نے جواب دیا۔

پھر پوچھا گیا کہ مبینہ منی لانڈرنگ کی رقم کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟

میں سیاست میں مصروف رہا، میرے علم میں نہیں، نواز شریف کا نیب ٹیم کو جواب۔

نیب ٹیم نے نواز شریف سے پوچھا کہ لند ن فلیٹس آپ کے بقول بچوں کے ہیں، مگر شوگر ملز کے شئیر تو آپ کے نام ہیں اور آپ کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، اس پر کیا کہیں گے؟

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ کوئی اندرونی سیٹلمنٹ ہوگی اور ہمارے اکاوئنٹنٹ کے علم میں ہوگا، میں کاروباری معاملات سے ہمیشہ دور رہااور ان باتوں کا جواب یوسف عباس بہتر دے سکتے ہیں۔ 

یوسف عباس کہتے ہیں کہ ان کے علم میں نہیں، یہ تو طے ہے کہ منی لانڈرنگ کی رقم کا میاں شریف سے کوئی تعلق نہیں، اگر یہ رقم میاں شریف کا اثاثہ ہوتی تو سب بچوں میں یکساں تقسیم ہوتی، اس کا کیا جواب دیں گے؟ نیب ٹیم نے سوال کی صورت میں پوچھا۔

اس پر نواز شریف نے سوال پر سوال کیا کہ  یہ آپ بتا دیں، یہ پیسہ کیا سمگلنگ سے کمایا ؟ ڈاکہ مارا؟ عوامی پیسہ استعمال کیا؟ قومی خزانے کا پیسہ ہے؟ آپ بتائیں یہ پیسہ کس کا ہے؟

نیب ٹیم نے تفتیش کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ  منی ٹریل آپ نے دینی ہے، وگرنہ یہ پیسہ مشکوک ہے، اور ایسی رقوم کرپشن ، کک بیکس یا منی لانڈرنگ کی ہوا کرتی ہیں۔