اگر نواز شریف جیل جاسکتے ہیں تو ثاقب نثار بھی جیل جاسکتے ہیں: شاہد خاقان عباسی

اگر نواز شریف جیل جاسکتے ہیں تو ثاقب نثار بھی جیل جاسکتے ہیں: شاہد خاقان عباسی
مسلم لیگ ن کے سینئر قائد اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر نواز شریف جیل جاسکتے ہیں تو ثاقب نثار بھی جیل جاسکتے ہیں ۔ انشاء اللہ بہت جلد نیازی اور اس کے تمام سہولت کاروں کا احتساب شروع ہونے والا ہے

شاہد خاقان عباسی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جو مسئلہ عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں یہ تشویشناک ہے، ایک حلفیہ بیان سامنے آیا ہے، یہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کا حلفیہ بیان ہے، یہ بیان حلفی نوٹری پبلک سے تصدیق شدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گلگت بلتستان آئے، وہ اکٹھے فیملیز کے ساتھ چائے پر تھے، ثاقب نثار نے اپنے رجسٹرار کے ساتھ فون پر بات کی، ثاقب نثار نے رجسٹرار کے ذریعے جسٹس عامر فاروق کو پیغام دیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت انتخابات سے پہلے نہ ہو، چیف جسٹس کی جسٹس عامر سے بات ہوگئی اور ان تک پیغام پہنچ گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے چائے کے دوران کہا کہ آپ کیوں ایسا کر رہے ہیں؟ اس پر ثاقب نثار کا جواب تھا کہ پنجاب کی اور گلگت بلتستان کی سیاست اور ہے، رانا شمیم نے اپنے بیان حلفی کی ٹی وی پر تصدیق کی ہے، نواز شریف کو ایک اقامہ رکھنے پر سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ بن کر نااہل قرار دیا، اس سے پاکستان کی وفاقی حکومت ٹوٹ گئی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ سب لیگل ریکارڈ کا حصہ ہے، نواز شریف کو سیاست سے الگ کیا گیا، نااہل کیا گیا، اقامہ پر جو کیس چلا اس میں سپریم کورٹ کی طرف سے مانیٹرنگ جج مقرر کیا گیا، ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، جج محمد بشیر تھے، ریکارڈ میں کہیں نواز شریف اور مریم نواز کا نام نہیں ہے، انتخابات سے قبل نواز شریف کو سزا سنائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی 17 جولائی کو گلگت بلتستان گئے جب نواز شریف کے فیصلہ کی تاریخ تھی، سوشل میڈیا پر سب کے پاس یہ بیان حلفی موجود ہے، حقیقت کا علم تین افراد ثاقب نثار، رانا شمیم اور میاں عامر فاروق کو ہے، عوام کا حق ہے کہ سچ انہیں پتا چلے، ملک میں انصاف سب کے سامنے آنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک سے یہ معاملات کب ختم ہوں گے؟ چھوٹے چھوٹے فائدے حاصل کرنے کے لئے زندگیوں سے کھیلا جائے گا؟ چیف جسٹس کا ایسا کردار ہوگا تو پھر آئین کہاں گیا؟ ملک کا نظام آئین کے مطابق نہیں ہے، ملک کے نظام میں مداخلت ہے، یہ چیزیں ملک کے مستقبل کا تعین کرتی ہیں۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب ملک کا سب سے بڑا جج مداخلت کر کے ضمانت کا راستہ روکے گا تو سب سمجھ سکتے ہیں جج محمد بشیر نے فیصلہ کیسے کیا ہوگا، ھم یہاں 20 سال پرانی عمارتیں گراتے رہتے ہیں، جسٹس ثاقب نثار ہسپتالوں کا دورہ کرتے تھے ڈیم بناتے تھے، ملک کے وزیر اعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر اقامے پر نکالتے ہیں، ملک کے چیف جسٹس کے ان کاموں کا نوٹس لینے پر الیکشن میں مداخلت پر کون جوابدہ ہے؟ پاکستان کی عوام آج جواب چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی مشکلات اور مہنگائی کی یہ جڑ ہے، آئینی ادارے انتخابات میں مداخلت کریں گے تو ایسا ہی ہوگا، عدلیہ پر انگلی اٹھادی گئی ہے، عدلیہ سے امید ہے اس پر سوموٹو لے گی، لندن کے نوٹری پبلک کے سامنے بیان حلفی دیا گیا، اسد درانی کے حلف نامے کا معاملہ ٹروتھ اینڈ ری کنسیلئیشن کمیشن کے سامنے رکھ دے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کم تر معاملات پر سوموٹو لیتی رہی اس پر بھی لینا چاہئے جس نے عدل کے نظام کو ہلا دیا ہے۔

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا کہ جب اس طرح انتخابات ہوں گے تو ایسی ہی اسمبلی سامنے آئے گی، جعلی انتخابات سے آنے والی اسمبلی سے بننے والی حکومت نے عوام کو کیا دیا ہے؟ آئین کے چیتھڑے اڑائے جارہے ہیں۔

خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی بیگناہی اس سے ثابت ہے، انتخابات پر بھی یہ اثرانداز ہوئے، سارا پراسیس جعلی ہے، آئینی اداروں پر سوال آگیا ہے، سابقہ چیف جسٹس پاکستان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ متنازعہ ہوگا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے انتخابات ہوں عوام نئے نمائندے منتخب کرے، تمام بے ایمانی اور دھاندلی کے باوجود کیا تحفہ دیا گیا، عمران کے پاس آج اسمبلی میں ووٹ نہیں ہے، عمران خان ہر لحاظ سے دیوالیہ ہوچکا اور ہمارے آئینی ادارے بھی۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ محمد آصف کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم پارلیمنٹ میں یہ معاملہ بھرپور طور پر اٹھائیں گے، ہم وکلاء سے مشاورت کرکے قانونی چارہ جوئی بھی کریں گے۔