محمدؐ کی محبت، اور سرکاری محفلِ سماع کا انعقاد

محمدؐ کی محبت، اور سرکاری محفلِ سماع کا انعقاد
خالق و مالک کائنات رب ذوالجلال نے یہ وسیع و عریض جہاں اور اس میں لاتعداد مخلوق خلق کی۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور انسانوں کی رہنمائی کے لیے انبیا کرام علیہم السلام بھیجے۔ ہدایت و رشد کا یہ سلسلہ کائنات کے پہلے انسان حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر محبوب رب سبحانی، خاتم النبین و خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر آ کر ختم ہو گیا۔ اب رہتی دینا اور قیامت تک آنیوالے انسانوں کی ہدایت کا وسیلہ صاحب الفرقان و صاحب القران صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس اور سنت مبارکہ رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی سورة الاحزاب میں فرمایا کہ ’’تمہارے لیے رسولﷺ کی ہستی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ گویا یہ بات تو طے ہے کہ رسولؐ اللہ کی حیات طیبہ ہر لحاظ سے کامل ہے اور رب کائنات کے بعد رسولؐ کی ذات اقدس میں علم و دانش، استاد و مربی، حسن و جمال، حکمت و دور اندیشی کی صفات والے حاکم و منصف، سپہ سالار و رہنما، تاجر و خریدار، اولاد و والد، شوہر، دوست، مہاجر و فاتح کی لازول مثال موجود ہے۔

یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

رسولؐ کی ولادت باسعات کو میلاد مصطفیٰ ﷺ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس دن کو عید میلاد النبی ﷺ کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس دن کو عید کیوں کہتے ہیں؟ اس دن کی خوشی منانے کا مقصد کیا ہے؟ جہاں تک عید کا سوال ہے تو قارئین کرام  لفظ عید عود سے بنا ہے جس کے معنی لوٹنا اور بار بار آنے کے ہیں۔ چونکہ یہ پُرمسرت دن ہر بار لوٹ کر آتا ہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیام لے کر آتا ہے، اس لیے یہ دن عید کہلاتا ہے۔ جب کہ میلاد مصطفیٰ ﷺ کو عید کہنے کی وجہ اور اس پر دلیل قرآن کریم کی سورة المائدہ کی وہ آیات ہے جو ابن مریم حضرت عیسیٰؑ سے منصوب ہے۔ رسولؐ خدا کی صحیح حدیث کے مطابق ’’ہر جمعہ مومن کے لیے عید کا دن ہے۔‘‘ علاوہ ازیں جمعہ کے دن ہی تمام انسانوں کے باپ جناب آدمؑ کی ولادت ہوئی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ نبیؐ کی پیدائش عید کا دن ہے۔ اس لحاظ سے آمنہؓ کے لال کی ولادت بھی عید ہے۔ عید کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے عید شرعی اور عید واجب اور دوسری عید فرحت، عید مسرت اور عید تشکر ہے۔ یہ مستحب اور مستحسن ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے مسلمان محبوب خدا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشی منانے کو بھی عید کہتے ہیں۔ نبی آخر الزماں ﷺ کی ولادت کے بارے تین روایات مقبول و معروف ہیں جن کے مطابق 9 ربیع الاول، 12 ربیع الاول یا 17 ربیع الاول کو آپؐ دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔ امت کا اجماع 12 ربیع الاوال والی روایت پر ہے۔

میلاد مصطفیٰ ﷺ سے کیا مراد ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو بہت سے اذہان میں موجود ہے لیکن غیر تسلی بخش اور غیر منطقی دلیل کی وجہ سے مکلم و متکلم دونوں ہی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے ہوئے ہیں۔ میلاد کے معنی 'عظیم الشان ولادت' اور 'ولادت کا وقت' کے ہیں۔ ولادت کی خوشی منانا میلاد کہلاتا ہے۔ میلاد مصطفیٰﷺ سے مراد رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرنا، آپ ﷺ کی شان اقدس بیان کرنا، آپ ﷺ  کی حیات طیبہ لوگوں کو بتانا، رسولﷺ کے اسوہ حسنہ پر چلنے کا عزم کرنا، ممکن ہو تو غربا میں کھانا تقسیم کرنا ہے۔ االلہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ہم نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کر دیا‘‘۔ ذکر مصطفی ﷺ سنت خدا بھی ہے۔ آج کے دور میں پیسے کی نمائش سے  گلیوں، بازاروں، چوکوں و چوراہوں پر روکاٹیں کھڑی کرنا، ہر شخص کو بلاوجہ چندہ دینے کے لیے مجبور کرنا، عورتوں اور خواجہ سراؤں پر آوازے کسنا، چھوٹے بچوں کا استحصال کرنا، خواتین سے باتیں کرنے کی غرض سے اشیا تقسیم کرنا، خواتین اور بچوں کو لے کر رش والی جگہ پر جا کر کھانا جمع کرنا، اذان و نماز کی پروا کیے بغیر جلوس و مجالس منقعد کرنا کسی بھی صورت میلاد مصطفیٰ ﷺ نہیں ہے۔ ان اعمال کا تعلق نہ تو شریعت محمدی ﷺ سے ہے اور نہ ہی اصحاب رسولﷺ  و بزرگان دین کی تعلیمات سے ہے۔ ان افعال کا تعلق صرف اور صرف جہالت، گمراہی، بداخلاقی سے ہے۔

جشن آمد رسولﷺ کا نعرہ بڑے پرتپاک انداز سے لگایا جاتا ہے۔ لیکن جب بات آتی ہے صداقت و امانت کی، عدالت و شجاعت کی، سخاوت کی تو پھر چراغ چھوڑیے مائکروسکوپ لے کر ڈھونڈنے سے بھی رسول اللہ ﷺ کی امت نظر نہیں آتی ہے۔ دنیا میں کہیں دہشت گردی یا کوئی اور افسوسناک واقعہ ہو جائے تو دل دہل جاتا ہے اور یہی دعا نکلتی ہے کے یا اللہ اس دفعہ کوئی حملہ آور مسلمان نہ ہو۔ پوری دینا میں 2019 کے آخر میں ایک نئی بیماری نمودار ہوئی جو سائنسدانوں کے بقول کرونا وائرس نامی طفیلے سے پھیلتی اور اس کا پھیلاؤ بہت تیز اور جان لیوا ہے لہٰذا شہروں کو بند کر کے لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا جائے تو اس بیماری کی شدت میں کمی آ سکتی ہے۔ ایک سال اور دس ماہ کے اس سفر میں ہزاروں لقمہ اجل بن گئے اور لاکھوں بے روزگار ہوئے۔ وطن عزیز پاکستان پر اس کے اثرات بہت برے پڑے کیوں کہ آپ نے سن رکھا ہے کہ ’جیسی قوم ویسے حکمران‘۔  حکومت وقت سے سہولیات کی قلت کی شکایت کرتی ہوئی عوام کے تاجروں، سرداروں اور مختلف نجی اداروں کے مالکان نے پیسے ہوتے ہوئے بھی اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے انکار کر دیا۔ یوں لاکھوں لوگ بھوک و افلاس کا شکار بنے۔ ہر سال حج پر جانےاور لاتعداد دفعہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے مکہ، مدینہ، الرحمٰن، الرحیم جیسے ناموں پر کاروبار چلانے والے احباب نے کرونا کو کفار پر اللہ کا عذاب بتاتے ہوئے اشیا خوردونوش کی قیمتیں چار گنا کر دیں۔ یہ سب احباب رات کو چھت پر چڑھ کر اذانیں بھی دیتے رہے اور خالق کائنات سے قنوت نازلة پڑھ کر معافی کے طالب گار بھی رہے۔ موذی مرض سے بچ جانے والے پلازما بیچتے پائے گئے۔ جہلا ایلکڑون مائیکروسکوپ سے بھی نہ نظر آنے والے جرثومے کا مختلف ٹوٹکوں سے علاج کرتے پائے گئے۔ رہی سہی کسر مسلط شدہ نااہلی اور  نالائقی کے علمبردار  فسطائیت اور آمریت کے جانشین حکومتی ٹولے نے پوری کر دی۔ ہر مسئلے کی وجہ عوام ٹھہرے۔ مدینہ کی ریاست اور اسلامی فلاحی ریاست کے دعوایدار حکمرانوں کے کتے، گھوڑے، بلیاں چارٹرڈ طیاروں پر سفر کرتے اور برآمد کی گئی مہنگی خوراک کھاتے پائے گئے جب کہ بے روز گار مزدور بچوں سمیت خودکشی پر مجبور ہوئے۔ دین انسانیت کا نام استعمال کر کے پلنے اور اپنی نسلوں کو پالنے والے  حکومتی عہدوں کے متلاشی نام نہاد علما ان حکمرانوں کے دست و بازو بنے ہوئے قوم کو قناعت کا درس دیتے پائے جاتے ہیں۔

غزوہ بواط سے تبوک تک رہنمائی کرنے والے، بدر سے حنین کے معرکے تک کے سپہ سالار کی شجاعت، اپنے شاگردوں کو صفہ سے میدان عرفات تک  پڑھانے  والے استاد، حرا سے ثور تک کا سفر طے کرنے والے، خدیجہؓ و عائشہؓ کے شوہر، فاطمہؑ کے ابا، حسنینؑ کریمین کے نانا، ابوبکرؓ و عمرؓ کے داماد، عثمانؓ و علیؑ کے سسر، صاحب قرآن اور  قرآن ناطق، فاتح مکہ، صداقت و امانت کے علمبردار، عرب سے مصر تک کے ایماندار تاجر، حقوق نسواں و طفل کے داعی، علم سکیھنے کو فرض کر دینے والے محمد عربی ﷺ کی امت دنیا کی جھوٹ بولنے والی، ناپ تول میں کمی، ملازم کا حق مارنے والی، ناانصافی میں سرفہرست، بدعنوانی کی سرخیل بن جائے اور ان کے حکمران غریب کے لیے ایک وقت کی روٹی بھی مشکل کر کے دارالحکومت میں محفل سماع کروانے اور کرسی کی جنگ میں مصروف ہو جائیں تو عوام و خواص، قانون ساز و عامل قانون اور منصف جتنے مرضی عشق مصطفیٰؐ  کے دعوے کر لیں یہ سب تب تک کھوکھلے ہیں جب تب عمل موجود نہ ہو۔ آج میلاد مصطفیٰ ﷺ مانتے ہوئے ضمیر ملامت کرے اور یہ سوال پوچھے کہ ’محمد رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہو یا ان کی بھی مانتے ہو؟ نہیں مانتے تو پھر عاشق رسولﷺ ہونے کے دعوایدر کیوں ہو؟‘ اگر اپنے آپ کو شافع محشر کی شفاعت کے قابل بنانے کی تحریک جنم نہ لے تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے صرف چھٹی منائی ہے اور لنگر کھایا۔ باقی ہمارے  پاس ضمیر پر فاتحہ پڑھنے کا وقت نہ بھی بچے تو کوئی بات نہیں ضمیر ہم پہ فاتحہ پڑھ چکا ہے۔

سما سکتی ہے کیونکر حُبِّ دنیا کی ہوا دل میں
بساہوجب کہ نقشِ حُبِّ محبوب خدا دل میں
محمدؐ کی محَبّت دینِ حق کی شرطِ اوَّل ہے
اِسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمّل ہے
محمدؐ کی غلامی ہے سَنَد آزاد ہونے کی
خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی
محمدؐ کی محَبت آنِ ملّت شانِ ملّت ہے
محمدؐ کی محبت روحِ ملّت جانِ ملّت ہے
محمدؐ کی محَبت خون کے رِشتوں سے بالا ہے
یہ رشتہ دُنیوی قانون کے رِشتوں سے بالاہے
محمدؐ ہے متاعِ عالَمِ ایجاد سے پیارا
پِدَر، مادر بِرادر مال جاں اولاد سے پیارا
یِہی جذبہ تھا ان مردانِ غیرت مند پر طاری
دِکھائی جن کے ہاتھوں حق نے باطِل کو نِگُوں ساری