اسٹیبلشمنٹ کے پاس نواز شریف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا

میدان ہموار ہے مگر کھلاڑی تبدیل ہو چکا ہے لیکن اس بات کی ضمانت نہیں کہ کھلاڑی طے شدہ حدود کے اندر کھیلے گا یا پہلے کی طرح خود کو وزیر اعظم سمجھنا شروع کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کیلئے صرف عمران خان ہی نہیں، نواز شریف کے گھر کے اندر شہباز شریف بھی موجود ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے پاس نواز شریف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا

ملک کے ابتدائی 25 سالوں کا ذکر نہیں کرتے۔ ملک ٹوٹنے کے بعد حکومتیں بنانے، ڈھانے، کبھی وزرائے اعظم کو بھرے جلسوں میں تو کبھی لٹکا کر مارنے، جلاوطن کرنے اور جیل میں ڈالنے کا جو تماشا شروع ہوا تھا، کیا یہ کبھی ختم بھی ہو گا؟ احتساب اور انصاف کے ادارے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو مکمل کرانے میں کب تک آگے آگے رہیں گے؟ پاکستانی سیاست کے مومن ایک ہی سوراخ سے خود کو کب تک ڈسواتے رہیں گے؟ کیا یہ سلسلہ بند ہو گا؟ کیا نواز شریف کے ساتھ واقعی کوئی ڈیل ہوئی ہے یا ان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے جس وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے؟ سیاست سے ابھی تک امیدیں وابستہ رکھنے والے لوگ ان ہی سوالات کے گرد گھوم رہے ہیں۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ کا شوق سلامت رہے!

جیسے ہی کوئی وزیراعظم بنے یا بنوایا جائے تو ایک سال بعد ہماری اسٹیبلشمنٹ کو لگتا ہے کہ بندہ کام کا نہیں ہے۔ پھر آہستہ آہستہ مختلف قوتیں جوڑ کر اس کے سامنے کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ لانگ مارچ ہوتے ہیں۔ دھرنے کروائے جاتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم زیادہ ضدی ہو تو پھر اسلام آباد کا ریڈ زون کراس ہو جاتا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں ڈیرے لگے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں لٹکتی ہیں۔ انقلابی عوام کو انگیج کرنے کیلئے ان دھرنوں میں کبھی قبریں کھدوائی جاتی ہیں تو کبھی کفن پوش مارچ کیے جاتے ہیں۔ شام کو کنسرٹ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ دن بھر کے تھکے ہارے کارکنوں کو محظوظ کرانا بھی لازم ہوتا ہے۔ اس طرح کی سرمایہ کاری چند کروڑ پتیوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ لیکن ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کا بندوبست کس کے کہنے پر ہوتا ہے۔

ضیاء الحق سے لے کر مشرف تک کسی بھی سویلین حکومت نے مدت پوری نہیں کی۔ جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد جو انتخابات ہوئے ان میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی بنوائی گئی۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی حمید گل نے اس گناہ کا اعتراف کیا۔ غلام اسحاق خان نے اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائے۔ اس بار نواز شریف کو وزیراعظم بنوایا گیا لیکن اس نے بھی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ پھر بے نظیر، اس کے بعد پھر نواز شریف۔ لیکن کھیل جاری رہا۔

بی بی کی شہات کے بعد 3 اسمبلیوں نے اپنی مدت تو پوری کی لیکن 6 وزرائے اعظم کے ساتھ۔ 2 کو سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور ایک وزیر اعظم ماتحت عدالت کی جانب سے نااہل کر دیا گیا۔ یہ کھیل ابھی بھی جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کی امید بھی نہیں۔

نواز شریف 4 سال قبل جب ملک سے روانہ ہوئے، بہانہ کوئی بھی ہو، اگر وہ جیل میں رہتے تو عمران خان کی خواہش تھی کہ میاں صاحب جیل سے زندہ نہ نکلیں۔

عمران خان کے غلطانوں کے قصے تو بہت ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ نواز شریف ہو گا تو پنجاب کنٹرول میں نہیں ہو گا۔ اسے اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کے خلاف اتنا بھڑکایا کہ وہ اس کا حقیقی دشمن بن گیا۔ اس نے پنجاب کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی سننے کے بجائے گھر کی اسٹیبلشمنٹ کی سنی اور ملک کے بڑے صوبے کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے حوالے کر دی جس کو یونین کونسل بھی نہیں ملنی چاہئیے تھی۔ یہ بات ن لیگ کیلئے اچھی اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے بری تھی اور نیوٹریلٹی کے نام پر تعلق میں دراڑ کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔

عمران خان سمجھ رہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کا رومانس ہمیشہ چلتا رہے گا۔ اسے یقین دلایا گیا کہ ملک کا آئین اور نظام تبدیل ہو گا، ون پارٹی سسٹم نافذ ہوگا، گلیاں سُنجیاں ہوں گی اور مرزا یار کا ہی راج ہو گا۔

عمران خان کو جس طرح یقین دلایا گیا تب تک اس کی سوچ ٹھیک تھی۔ کسی ملازم کے ساتھ بھلائی کا سلسلہ جاری رکھو تو وہ اس کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ عمران نے بھی ایسا ہی کیا۔ وہ اس خوش گمانی میں گرفتار تھا کہ اقتدار کا یہ سورج غروب نہیں ہو گا۔ لیکن رات آتے دیر کہاں لگتی ہے۔

عمران خان کو نکالنے کیلئے سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ریسکیو کیا۔ لیکن اس کی قیمت پاکستان کی سیاست اور سیاسی جماعتوں نے ادا کی اور آنے والے سالوں میں بھی ادا کرتی رہیں گی۔

اس وقت ملک کی اسٹیبلشمنٹ، ن لیگ اور جے یو آئی ہر صورت میں عمران خان کا فزیکل خاتمہ چاہتی ہیں لیکن ن لیگ کی سنجیدہ قیادت کو اندازہ ہے کہ سیاسی قوتوں کو سیاسی قوت کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کیلئے ممکن ہے کہ ن لیگ کے کچھ رہنماؤں کے دل میں نرم گوشہ ہو لیکن اسٹیبلشمنٹ کے پاس تو فی الحال قطعی نہیں۔

اس کا سبب یہ ہے جس اسٹیبلشمنٹ نے اسے بنایا تھا اس نے اسے نہ صرف آنکھیں دکھائیں بلکہ للکارا بھی۔ پنجاب میں طاقتور سیاسی بیس رکھنے والی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے اس طرح کی للکار ملکی تاریخ میں کبھی پہلے نظر نہیں آئی۔ یہی سبب ہے کہ عمران خان، جو کل تک ان کی آنکھ کا تارا تھا، اب کانٹا بن چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس کانٹے کو نکال تو دیا ہے لیکن وہ خود بھی ذہنی طور پر زخمی ہے۔ کھلے عام اعتراف نہیں کرتی کہ جس پھول کو اگایا تھا وہی اس کے گلے کا کانٹا بن گیا ہے۔

اب جب چار سال بعد نواز شریف وطن واپس آ رہے ہیں تو دو تین بڑے چینلجز ان کے سامنے ہیں۔ ان میں سے ایک آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی ہے اور عوام اس مہنگائی کا ذمہ دار 16 ماہ کی ن لیگ حکومت کو سمجھتے ہیں۔ ن لیگ کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ اس مہنگائی نے انہیں عوام کے پاس جانے کے قابل نہیں چھوڑا۔

دوسرا مسئلہ دلدل میں پھنسی ملکی معیشت ہے، جس کو بحران سے نکالنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

تیسرا چیلنج یہ ہے کہ اگر وہ ملک کے چوتھی بار وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو ان کے پاس ایسی کیا جادو کی چھڑی ہے جو وہ ملک کے عوام کو معاشی طور پر 2017 کے سال میں واپس لے آئیں گے؟

لیکن پہلے پاکستان کے نظام انصاف اور احتساب کے اداروں کی مختصر بات ضروری ہے۔ ان کی ساکھ کا یہ عالم ہے کہ مختلف کیسز میں روپوش قرار دیے رہنما اگر پی ٹی آئی سے توبہ تائب ہو کر ایک پریس کانفرنس کر لیں تو ان کے سارے کیسز ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔

نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تو نا صرف کیسز اور پیشیاں بھگتتے رہے بلکہ اپنی حکومت میں بدترین میڈیا ٹرائل کا بھی سامنا کرتے رہے۔ اسی رویے کا سامنا محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری اور دیگر کو بھی کرنا پڑا۔ جونیجو کے بعد ایسا کون سا وزیر اعظم ہے جس پر کرپشن کے الزامات نہ لگے ہوں؟ عوام کے یہ منتخب وزیر اعظم جب خود کو وزیر اعظم سمجھنا شروع کرتے ہیں تو پھر بوجھ بن جاتے ہیں۔

ملک کی منتخب قیادتوں کو اتنی جرات نہیں ہوتی کہ ان اداروں سے پوچھیں کہ جنہیں وہ گناہ گار قرار دے کر جیل میں ڈالتے ہیں اور دنیا بھر میں انہیں رسوا کرتے ہیں، انہیں اچانک کیوں قانون کی واشنگ مشین میں ڈال کر پاک صاف کر دیا جاتا ہے۔ ان کے جیل میں گزرے دن اور دنیا بھر میں ہوئی رسوائی کا کوئی ازالہ ہو سکتا ہے؟ لیکن مصلحت کی ماری سیاسی جماعتیں خود کے بجائے سامنے والے کی قوت پر یقین رکھنے کی عادی ہو چکی ہیں۔ اس لیے یہ سوال کون کرے گا؟

اب جب میاں نواز شریف وطن واپس آ رہے ہیں تو عدالتوں اور نیب سمیت دیگر اداروں کا رویہ 180 ڈگری پر تبدیل ہو چکا ہے۔ پہلے جس طرح انہیں رسوا کر کے نکال باہر کیا گیا تھا اب انہیں دولہا بنا کر واپس سیاسی میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ بارات کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔

سبب یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس نواز شریف کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں۔ یہ متبادل پیپلز پارٹی ہو سکتی تھی، اسے آسرا بھی دیا گیا، اس سے بہت سارے کام بھی نکلوائے گئے، لیکن پنجاب میں اس کی ایسی پوزیشن نہیں جو ن لیگ کی ہے اور نا ہی سعودی عرب اور قطر سے پیپلز پارٹی کے ایسے تعلقات ہیں جیسے میاں نواز شریف کے ہیں۔ دکان چلانے کیلئے مال چاہئیے اور یہ مال فی الحال نواز شریف ہی لا سکتا ہے۔

ملک میں جتنے بھی سخت فیصلے ہونے ہیں وہ نگران حکومت کے دور میں ہی ہو جائیں گے تا کہ نواز شریف کو میدان صاف کر کے دیا جائے۔

اس لیے یہ یاد رکھیں کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے تا کہ اسے اقتدار دے کر پروجیکٹ عمران کی ناکامی کے زخموں کو مندمل کیا جا سکے۔ جب زخم مندمل ہو جائیں گے تب کی تب دیکھی جائے گی۔

نواز شریف پر مہربانی کا یہ عالم ہے کہ ابھی الیکشن کا شیڈول بھی اناؤنس نہیں ہوا۔ پنجاب میں ن لیگ کا عوامی سطح پر برا حال ہے لیکن یہ تاثر ابھی سے بنا دیا گیا ہے کہ نواز شریف ہی ملک کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔ 2018 سے پہلے عمران خان کیلئے بھی ایسا ہی ماحول بنایا گیا تھا۔ آج نواز شریف کیلئے ہے، آئندہ کسی اور کیلئےہوگا۔

میدان ہموار ہے مگر کھلاڑی تبدیل ہو چکا ہے لیکن اس بات کی ضمانت نہیں کہ کھلاڑی طے شدہ حدود کے اندر کھیلے گا یا پہلے کی طرح خود کو وزیر اعظم سمجھنا شروع کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کیلئے صرف عمران خان ہی نہیں، نواز شریف کے گھر کے اندر شہباز شریف بھی موجود ہے۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔