امریکی ڈالروں کی بھاری قیمت پاکستان کے عوام کو چکانی پڑتی ہے

پاکستان نے اپنے قیام سے ہی معاشی مسائل کے حل کے لیے امریکی امداد پر انحصار کرنا شروع کر دیا تھا۔ 1950 کی دہائی میں امریکی صدر آئزن ہاور کی حکومت سے پاکستان کو امداد کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستان تو 1947 سے ہی امریکہ کو یہ باور کروانے کی کوشش میں تھا کہ 'کچھ ہمارے بارے میں بھی سوچو'۔

امریکی ڈالروں کی بھاری قیمت پاکستان کے عوام کو چکانی پڑتی ہے

امریکی میگزین Intercept جو عالمی خبروں اور تحقیقاتی تجزیوں میں مقبول حیثیت رکھتا ہے، اس نے 17 ستمبر کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض کی قسط حاصل کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ ڈیل کی تھی جس کے مطابق پاکستان یوکرین اور روس کے معاملے پر امریکہ کے مؤقف کی نا صرف حمایت کرے گا بلکہ یوکرین کو اسلحہ اور دیگر فوجی سامان کی فراہمی بھی یقینی بنائے گا۔ جہاں تک اس خبر کا تعلق ہے تو ایک ذمہ دار ویب سائٹ نے اتنا بڑا دعویٰ بغیر ثبوت اور ریسرچ کے نہیں کیا ہو گا اور یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اس سے پہلے امریکی سائفر اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے والے معاملے پہ انٹرسیپٹ میں چھپنے والے تجزیے کے خالق بھی یہی صحافی تھے جنہوں نے اس ڈیل کی خبر رپورٹ کی ہے۔ بہرحال اس دعوے پر پاکستان اور امریکہ کا مؤقف یا کوئی تردید تو سامنے نہیں آئی مگر اس خبر کو پڑھنے کے بعد پاکستان کی 75 سالہ ریاست اور اس پہ امریکی استعمار کے کنٹرول کی ایک طویل تاریخ آنکھوں کے سامنے کھل جاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے قیام سے ہی معاشی مسائل کے حل کے لیے امریکی امداد پر انحصار کرنا شروع کر دیا تھا۔ 1950 کی دہائی میں امریکی صدر آئزن ہاور کی حکومت سے پاکستان کو امداد کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستان تو 1947 سے ہی امریکہ کو یہ باور کروانے کی کوشش میں تھا کہ 'کچھ ہمارے بارے میں بھی سوچو'، مگر امریکہ کے پاس کوئی جواز نہیں تھا جس کے تحت وہ پاکستان کو امداد دے کر اس سے کوئی مناسب کام لے سکے۔ جیسے جیسے سرد جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، امریکیوں کو پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہونا شروع ہوا تو انہوں نے پاکستان کو کچھ امداد دینا شروع کی مگر اس امداد سے ہمارے مسائل ہمارے حساب سے حل نہیں ہو پا رہے تھے۔

1958 میں صدر ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ذرا کھل کر اقتصادی مسائل کا حل نکالنے کا فیصلہ کیا اور امریکہ کو باقاعدہ فوجی اڈے فراہم کر دیے جن کے ذریعے امریکہ آسانی سے سوویت روس کی جاسوسی کر سکتا تھا۔ اس فوجی تعاون کے بدلے میں امریکہ ہمیں امداد دیتا رہا جس سے ایوب دور میں اقتصادی اور صنعتی ترقی ہوئی۔ تب سے آج تک پاکستانی ریاست کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے کہ اپنے ملک کی معیشت کو بہتر کرنے اورملکی اداروں کی کرپشن اور لوٹ مار روکنے کے بجائے امریکہ کے اتحادی بن جاؤ اور امریکی امداد کے ذریعے سے ایشین ٹائیگر بننے کے خواب دیکھو۔ اس طرح عوام کو چینی اور گھی کی کنٹرول قیمتیں دے کر سیاست دان، فوجی اور افسرشاہی کے نمائندے مزے میں رہ سکتے ہیں اور رہتے بھی ہیں۔

اگر ضیاء الحق کے مارشل لاء کو اس پیرائے میں دیکھا جائے تو یوں دکھائی دیتا ہے جیسے بھٹو دور کی امریکی سامراج کے خلاف مزاحمتی سیاست اور مشرق وسطیٰ سے لے کر ایشیائی و افریقی ممالک کے بلاک بنانے سے پاکستان کو 'وہ' والی امداد کہیں سے نہیں مل رہی تھی جس کی پاکستان کو ضرورت تھی اور جس سے پاکستان میں بڑے بڑے ترقیاتی کام ہوتے ہیں، ہر طرف خوشحالی ہوتی ہے اورجس کی بنیاد پر پاکستان کے عوام ایوب دور، ضیاء دور اور مشرف دور کو یاد کر کے فراق یارمیں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ اس لیے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی ریاست اور اس کے اداروں نے فیصلہ کیا ہو گا کہ بھٹو کو پھانسی پہ چڑھاؤ اور امریکہ کے ساتھ مل کر ایک دفعہ پھر ترقی اور خوشحالی کا سفر شروع کرتے ہیں۔ یوں وہ افغان جنگ میں کود پڑے اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

1990 کی دہائی پاکستان نے بڑی مشکل سے گزاری اور شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ 80 کی دہائی کے ڈالروں کی بہار ابھی تک موجود تھی۔ مگر 9/11 کے بعد پاکستان پھر سے اپنی اصل ڈیوٹی پہ واپس آ گیا اور پاکستان میں میڈیا، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری بھی آئی اور ترقیاتی کام بھی ہوئے۔ اسی لیے مشرف دور کے ترقیاتی کاموں کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ امریکہ کم و بیش 20 سال تک افغانستان میں رہا اور ہمارا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کے معاشی مسائل میں اضافہ شروع ہو گیا جو موجودہ دور میں شدید مہنگائی اورافراط زر کی صورت میں سامنے ہے۔

پاکستان کے منہ کو بہت شروع سے امریکی ڈالروں کا خون لگ چکا ہے جس سے چھٹکارا پانے کے لیے کسی کے پاس کوئی فوری معاشی اور اقتصادی حل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی امداد پر انحصار کر کے غیر صحت مندانہ اعداد و شمار سے معیشت کو بہتر ثابت کرنے کے ہنر کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان اپنے اقتصادی اداروں کی مضبوطی، برآمدات اور درآمدات کے عمل کو درست سمت میں نہ کر سکا۔ اس لیے پاکستان کی ریاست اب پھر سے 'اپنے' ڈالروں کی بازیابی کے لیے کوشش میں تھی مگر افغانستان میں اپنے طالبان کی حکومت بنوانے کے بعد امریکہ ہم سے کنارہ کش ہو گیا جو ہمیں ہرگز قبول نہیں تھا۔

اب تو یہ حالات پیدا ہو چکے تھے کہ امریکی امداد تو دور کی بات، آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج بھی نہیں مل رہا تھا اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں مارکیٹ میں زور سے گردش کر رہی تھیں۔ پاکستان کی ملکی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں بھونچال اس وقت آیا جب وزیر اعظم عمران خان اچانک روس کے دورے پر چلے گئے۔ یہ بظاہر اتفاق تھا کہ عمران خان ابھی روس میں ہی تھے تو روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ یہ اتفاق اس لیے نہیں لگتا کہ ملکوں کے درمیان اس طرح کے تنازعات کی اصل نوعیت ملک کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے اداروں کو پتہ ہوتی ہے۔ پاکستانی ریاست کے تاریخی طریقہ کارروائی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کے دورے کی ٹائمنگ انتہائی پرفیکٹ تھی۔ یہ بہترین موقع تھا کہ امریکہ کو اپنی اہمیت کا احساس دلا کر 'اپنے منجمد ڈالروں' پر امریکہ سے بات چیت کی جائے۔

پاکستان نے امریکی امداد کے لیے اپنے ملک کے جمہوری لیڈروں کو پھانسی پہ چڑھانے سے لے کر جمہوریت اور ملکی سلامتی کے ہر ادارے کو داؤ پہ لگا رکھا ہے۔ 1960 کی دہائی کے دوران سرد جنگ کے دور میں ایک امریکی طیارہ سوویت روس نے مار گرایا تھا جو روس کی فوجی تنصیبات کی خفیہ جاسوسی کرتا تھا۔ یہ طیارہ پشاور کے قریب بڈھ بیر کی فوجی چیک پوسٹ سے اڑان بھرتا تھا۔ یہ چوکی پاکستان نے امریکی امداد کے بدلے امریکہ کو روس کی جاسوسی کے لیے دے رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 1971 میں سوویت روس کی جانب سے مشرقی پاکستان والے معاملے پر بھارت کی بے پناہ حمایت پاکستان کو اس بات کی سزا دینے کے لیے تھی کہ اس کی سرزمین روس کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ تاریخ میں ایک مرتبہ پھر امریکہ اور روس کی جنگ میں روس کے خلاف پاکستان کا اسلحہ استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان کی ریاست امریکی ڈالروں کو حاصل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی جنگ میں حصہ دار بن کر اپنی سالمیت کو بھی داؤ پہ لگا دیتی ہے۔ کوئی پاکستان کی ڈالر زدہ ریاست کے عوام کو بتائے گا کہ اس بار امریکی ڈالر لینے کی قوم اور ریاست کو کیا قیمت چکانی پڑے گی؟

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔