گذشتہ چند ہفتوں سے سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے جلسوں میں کہتے پھر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت گرانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں اور اس حوالے سے 'مسٹر ایکس' اور 'مسٹر وائے' متحرک ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہو رہا ہے جو تحریکِ انصاف کی طاقت کو کم کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف بھی ایک انٹرویو میں انکشاف کر چکے ہیں کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت گرانے کے لئے متحرک ہے۔ چند روز بعد ن لیگ کے ایک اور سینیئر رہنما رانا مشہود نے عطااللہ تارڑ کے ساتھ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی حکومت پنجاب میں چند روز کی مہمان ہے، اور اس کے بعد مسلم لیگ ن صوبے میں حکومت الٹا دے گی۔
سینیئر صحافی اور دی فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر نجم سیٹھی قریب دو ہفتے قبل لکھے اپنے تہلکہ خیز اداریے میں انکشاف کر چکے ہیں کہ ایک عدد 'پنڈی پلان' معرضِ وجود میں آ رہا ہے اور اس کے تحت پنجاب میں جلد ن لیگ کی حکومت قائم کر دی جائے گی جب کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت قائم رکھے گی جس کے بعد تمام صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کو بیک وقت تحلیل کرنے کے لئے راہ ہموار ہو جائے گی اور ملک اکتوبر میں انتخابات کی طرف چل پڑے گا۔
نجم سیٹھی کی جانب سے سامنے لائے گئے اس فارمولے نے جہاں سب کو ششدر کر دیا وہیں اس میں مبینہ جھول بھی سامنے لانے کی کوششیں ہونے لگیں۔ لیکن معاملات تیزی سے اس سمت میں ہی بڑھنا بھی شروع ہو گئے ہیں۔ اب پنجاب سے خبریں یہ ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی سے پاکستان تحریکِ انصاف کے صوبائی اراکین انتہائی ناراض ہیں اور وہ گذشتہ روز پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ہوئے اجلاس میں پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے اپنے تحفظات رکھ چکے ہیں۔ سماء ٹی وی کی خبر کے مطابق اجلاس میں شرکت کرنے والی پی ٹی آئی ارکان بھی وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے شدید ناراض اور غیر مطمئن ہیں۔ ارکان پنجاب اسمبلی اجلاس میں پرویز الہیٰ کے خلاف پھٹ پڑے، اور شکایات و تحفظات کا انبار لگا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان پنجاب میں لاوارث ہیں، جب کہ ق لیگ کے کونسلر سطح کے لوگ مشیر بنا لیے گئے ہیں۔ ارکان نے عمران خان سے گلہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ لگتا ہی نہیں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، سب خوار ہو گئے ہیں، کس کے پاس جائیں۔
تاہم، عمران خان نے ان کو صبر کا مشورہ دیا اور یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ پنجاب میں ق لیگ کی حکومت ہے کہا کہ اس حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے ہی پی ٹی آئی کو اپنا وجود منوانا ہوگا۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ ہمیں مجبوراً حکومت ق لیگ کو دینا پڑی، ہم نے اسلم اقبال کو سینئر وزیر لگا دیا ہے، وہ معاملات ٹھیک کر لیں گے۔ لیکن پارٹی ارکان ان کی اس تسلی سے کس حد تک مطمئن ہوئے ہوں گے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
یاد رہے کہ اس اجلاس سے باہر آنے والی اصل خبر تو یہ ہے کہ اس میں 25 ارکان غیر حاضر تھے۔ خبر کے مطابق 'ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد 176 ہے، جب کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 150 ارکان ہی شریک ہوئے، جس پر چیئرمین عمران خان نے شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ ارکان کی غیر حاضری نے پنجاب حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے'۔
یہ 25 ارکان کہاں تھے اور ان کی غیر حاضری کی وجہ کیا تھی، اس پر متضاد اطلاعات آ رہی ہیں لیکن اسی دوران ایک نئی خبر جس نے پنجاب کے مستقبل کے حوالے سے متجسس پنڈتوں کی خبر اپنی طرف مبذول کروا لی ہے وہ چند روز قبل لاہور میں ہونے والی ایک ملاقات ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ ملاقات سابق گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر خان ترین کے درمیان ہوئی جس میں ماضی کے گلے شکوے بھلا کر مستقبل میں مل کر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے متعدد ارکان ایک بار پھر جہانگیر ترین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
البتہ یہ اب بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ سب ہو کیسے پائے گا۔ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب میں وزیر اعلیٰ ہیں۔ اگر تحریکِ انصاف کے اپنے 25 ارکان اپنے مستقبل کا فیصلہ پی ٹی آئی سے ہٹ کر کرنا چاہ رہے ہیں تو پرویز الٰہی کے حوالے سے کوئی بھی انتہائی فیصلہ لینے کی قوت پارٹی میں کم ہوتی ہے۔ ن لیگ کے پاس پرویز الٰہی کو ہٹانے کے لئے تحریکِ عدم اعتماد کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں ہے اور اس میں بھی پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ نہیں دیا جا سکتا۔ یعنی اس کی کامیابی ناممکن ہے جب تک کہ خود ق لیگی ارکان پرویز الٰہی کے خلاف بغاوت نہ کر دیں کیونکہ باوجود اس امر کے کہ سپریم کورٹ اپنے پنجاب ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس کے فیصلے میں یہ عجیب و غریب فیصلہ دے چکی ہے کہ ارکانِ پارلیمنٹ پارلیمانی لیڈر کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں گے، یہ طاقت اب بھی پارٹی صدر کے پاس ہی ہے کہ وہ منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کروانے کے لئے معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر جائے یا نہیں۔ ایسی صورت میں ق لیگ کے اپنے 10 ارکان میں سے اکثریت اگر پرویز الٰہی کا ساتھ چھوڑ کر ن لیگ کی اتحادی بن جائے تو پنجاب میں کسی اپ سیٹ کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے معنی خیز جملہ لیکن اب تک سینیئر صحافی افتخار احمد نے نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں ہی کہا ہے کہ کم از کم میری اطلاعات کے مطابق ن لیگی قائدین کی جانب سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی۔ وہ لوگ تو مخالف پارٹیوں کے ارکان چھوڑیے، اپنے ارکان کے ساتھ بھی رابطے میں نہیں ہیں۔ ایسی کوئی بھی چیز اگر ہو رہی ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ ہی کی جانب سے کی جا رہی ہوگی، ن لیگ کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ اور اگر اسٹیبلشمنٹ ہی یہ کر رہی ہے تو پھر اس سب کا سیاسی طور پر ن لیگ کو کوئی فائدہ نہیں ہونے جا رہا۔