بیلٹ اور روڈ منصوبے کے دس سالوں پر ایک گفتگو

ہم نے چھ ماہرین سے پوچھا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے کیا توقع کی جائے کیونکہ اب یہ اپنی دوسری دہائی میں داخل ہو رہا ہے.

بیلٹ اور روڈ منصوبے کے دس سالوں پر ایک گفتگو

ستمبر 2013 کو صدر شی جن پنگ نے قازقستان کی نذر بائیف یونیورسٹی میں “ سلک روڈ اکنامک بیلٹ کی تعمیر میں ہاتھ ملانے” کی تجویز کا  اعلان کیا۔ اس تقریر کو وسیع پیمانے پر چین کی بیرون ملک سرمایہ کاری، رابطے اور تعاون کے زبردست پروگرام کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ سلک روڈ اکنامک بیلٹ کے نام سے جانا جاتا تھا، پھر یہ ون بیلٹ ون روڈ، اور آخر میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) بن گیا۔

اس تقریر میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بنیادی طور پر وسطی ایشیائی ممالک سے متعلق قرار دیا گیا جو قدیم شاہراہ ریشم سے تاریخی روابط رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد چین کا یہ منصوبہ انٹارکٹیکا کو چھوڑ کر 148 ممالک سے منسلک ہوتے ہوئے تمام براعظموں تک پھیل گیا ہے۔ جون 2023 تک اِن ممالک نے بیلٹ اینڈ روڈ کے بینر تلے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، تجارت میں اضافے اور تعاون کے منصوبوں کے لئے صرف ایک کھرب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری اور تعمیراتی معاہدے دیکھے ہیں۔ چین کی اِس سرمایہ کاری نے ترقی کی نئی امیدیں اور مواقع پیدا کئے ہیں۔

لیکن تنازعات میں بھی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ ابتدا میں ماحولیاتی اور سماجی معیارات کا غیر محتاط نفاذ اور ایسی سرمایہ کاری کا غلبہ جس سے ماحول میں بڑی مقدار میں کاربن کا اخراج ہو۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے راستے میں تنازعے کی ایک اہم ترین وجہ تھا۔ یہ وہ چیز ہے جس پر چین نے بعد میں توجہ دینا شروع کی۔ خاص طور پر 2019 میں دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے بعد سے، جس میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو “سبز (یعنی ماحولیاتی آلودگی سے پاک)” کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اِن پچھلے دس سالوں میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کس حد تک ترقی کر چکا ہے؟ اور ہمیں چین کے اِس منصوبے سے کیا امید رکھنی چاہئے جب یہ اپنی دوسری دہائی میں داخل ہو رہا ہے؟ اس منصوبہ کے دس سال پورے ہونے پر چائنا ڈائیلاگ نے چھ ماہرین سے اُن کے خیالات پوچھے۔

ما تیانجی

بیجنگ میں فری لانس مصنف ماحولیاتی اختیار اور چین کی بیرون ملک سرمایہ کاری پرلکھتے ہیں۔

جب چین کی طرف سے پہلی بار بی آر آئی کی تجویز پیش کی گئی تھی تو بیرون ملک چینی سرمایہ کاری کے ماحولیاتی مضمرات پر بہت کم غور کیا گیا تھا۔ درحقیقت، کم ترقی یافتہ ممالک کو زائد از ضرورت چینی صنعتی پیداوار برآمد کرنا اس کے ابتدائی دنوں میں اس منصوبے کا ایک واضح مقصد تھا۔ دس سال بعد شریک ممالک کے درمیان ، “بی آر آئی کو سبز کرنے” سے متعلق پالیسیوں اور رہنما اُصولوں پر زوروشور سے پیش رفت ہو رہی  ہے۔ بی آر آئی کے حوالے سے ہونے والی بات چیت میں موسمیاتی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظات کو پہلے سے زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے، چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ کے اس اہم ترین بیرون ملک سرمایہ کاری کے پروگرام کے ماحولیاتی اختیار کے حوالے سے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔

تاہم بیرون ملک ‘سبز بی آر آئی’ کی پالیسیوں کو بے اثر اور ناممکن النفاذ قرار دیا جا رہا ہے۔ چین کی منسٹری آف ایکولوجی اینڈ انوائرمنٹ (MEE) جس نے بی آر آئی کو “سبز” بنانے کے مشن کی قیادت کی ہے۔ اس کے پاس بیرون ملک نہ اختیارات ہیں اور نہ ہی اخلاقی طور پر دباؤ ڈالنے کا کوئی ذریعہ ہے جو وہ غیر ملکی دائرہ اختیار میں کام کرنے والی کمپنیوں کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔ جہاں معیارات اور قواعد اکثر چین کے اندر لاگو ہونے والے قوانین سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لیکن بی آر آئی کو سبز بنانا صرف ریگولیٹری اور اختیار کا معاملہ نہیں ہے۔ درحقیقت، کوئی یہ بحث کر سکتا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران بی آر آئی منصوبےکے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز سبز ترقی ہی وہ چیز ہے جو بیرون ملک چینی صنعتی پالیسی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔جسے منسٹری آف ایکولوجی اینڈ انوائرمنٹ کے ذریعے نہیں بلکہ صنعتی پالیسی سازوں جیسے نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن نے اپنے مالی وسائل کی مدد سے نافذ کیا ہے۔

آج، بی آر آئی نے نہ صرف کم ترقی یافتہ ممالک کو زائد از ضرورت چینی صنعتی پیداوار برآمد کرنے کی اصل پالیسی کو چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ اس نے کچھ سیکٹرل پالیسیاں بھی اختیار کی ہیں جن کا مقصد جدید چینی ٹیکنالوجیز کے لئے مارکیٹس بنانے کے ملکی ایجنڈے کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ کے اس منصوبے کو ہم آہنگ کرنا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی آر آئی کے ذریعے کوئلے کی بجلی کی برآمد کو روکنے کا 2022کا اعلان ایک مخصوص نوعیت کی صنعتی پالیسی مداخلت تھی جسے مالیات میں کٹوتی کے ذریعے لاگو کیا گیا تھا۔ جیسا کہ ہم بی آر آئی کی دوسری دہائی میں داخل ہو رہے ہیں، چین نے یہ عندیہ ظاہر کیا ہے کہ وہ بی آر آئی کے منصوبے میں سبز اور صاف توانائی بہم پہنچانےکے لئے مدد میں اضافہ کرے گا۔ یقیناً چین کے یہ بیانات خوش آئند ہیں۔ لیکن بیلٹ اینڈ روڈ کے اس ہمہ گیر منصوبے کو اصل فائدہ اِسی طرح کی مخصوص عملی نوعیت کی صنعتی پالیسی مداخلت سے ہوگا۔

چن یونن

ریسرچ فیلو، اوورسیز ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کا ڈویلپمنٹ اینڈ پبلک فنانس پروگرام

جب بی آر آئی منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا، تو یہ چین کی گلوبلائزیشن (عالمی پیمانے پر ترقی)کا تازہ ترین مرحلہ تھا اور اس نے چین کی ملکی معیشت کی ضروریات اور اِس کے بالواسطہ اثرات کے پھیلاؤ کی عکاسی کی۔ اُس وقت ، یہ بیرونِ ملک زائد از ضرورت چینی صنعتی پیداوار برآمد کرنے، اہم ترین بھاری صنعتوں کے لئے تعاون کرنے اور چینی ٹیکنالوجیز اور آلات کو برآمد کرنے کے لئے تھا۔ جیسا کہ چین کی داخلی معیشت اور اس کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے۔ اسی طرح بی آر آئی منصوبےکے خدوخال بھی تبدیل ہوں گے۔

سب سے بڑی تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی مالیاتی مددکے حوالے سے آئی ہے۔ 2016 سے، چین کے مالیاتی ریگولیٹرز نے اِس کے بینکنگ سیکٹر سے بطورقرض لئے جانے والے سرمایہ کاری فنڈز کی مقدار کو کم کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ اِس کی ذریعے مالی خطرات کو کم کیا جاسکے۔ چین کی ملکی معیشت کے بالواسطہ اثرات پہلے ہی سرکاری سطح پر منظّم کی جانے والی مالیات میں زبردست گراوٹ کی صورت میں دیکھے جا چکے ہیں جو کوویڈ-19 سے پہلےتھے اور کوویڈ کے بعد کے دور میں قرضوں کی بروقت اور مکمل ادائیگی کے چیلنجوں کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح کی مالیاتی مدد اپنے عروج پر واپس آنے کا امکان نہیں ہے۔ پہلے ہی، ہم نے چین کو بی آر آئی پر “چھوٹے اور خوبصورت” منصوبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اور قرضوں کی مالی اعانت سے چلنے والے بڑے بڑے منصوبوں سے ہٹتے ہوئے دیکھا ہے۔

آنے والے وقت میں ممکن ہے کہ ہم چین کو سبز مالیاتی اعانت حاصل کے مزید اختراعی ذرائع کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھیں۔ مقامی طور پر، چین کے تجارتی بینک، جیسے آئی سی بی س (ICBC)اور بینک آف چائنا، گرین بانڈز کے بڑے جاری کنندہ رہے ہیں، جن سے حاصل ہونے والی آمدنی کو قابل تجدید توانائی اور دیگر سبز بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری میں مدد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب تک، بی آر آئی میں اس کا محدود استعمال دیکھا گیا ہے لیکن یہ اس انتہائی ضروری بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کے لئے مالی اعانت حاصل کرنے کا کم خطرے والا ذریعہ ہوسکتا ہے۔

چین کی کم لاگت والی کلین ٹیکنالوجی ترقی پذیر ممالک کے لئے کاربن کے کم اخراج پر مبنی صنعتی ترقی کی راہ ہموار کرنے میں بھی ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہو سکتی ہے مگر یہ ترقی چین کی طرف سے دی جانے والی ٹھوس مالیاتی امداد سے مشروط ہے۔ جس طرح بی آر آئی میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر میگا پروجیکٹس اس کی مقامی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کا ذیلی نتیجہ تھے۔ اسی طرح چین کی قدرتی ایندھن سے پیدا کی جانے والی توانائی سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے اثرات بیرون ملک پھیلنے کا امکان ہے۔ یہ معاملہ نئی مارکیٹس میں نئی ٹیکنالوجیز کی برآمد کی صورت میں بھی ہے، جیسے قابل تجدید توانائی اور توانائی کی نئی قسموں سے چلنے والی گاڑیاں، اور ایسی اہم معدنیات کی طلب کی صورت میں بھی ہے، جیسے کہ تانبا، لیتھیم، اور دیگر نایاب دھاتی عناصر، جو اِن نئی گرین سپلائی چینز کا لازمی حصہ ہوں گے۔

اہم بات یہ ہوگی کہ بیلٹ اینڈ روڈ ممالک اپنی صنعتوں کو اپ گریڈ کرنے کے لئے ان مواقعوں سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو جیسے نئے ترقیاتی تعاون کے اقدامات، ترقی پذیر بی آر آئی کے ساتھ مل کر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ 

لینا بن عبد اللہ

سیاست اور بین الاقوامی امور کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، ویک فاریسٹ یونیورسٹی

بی آر آئی کی تشکیل کے دس سال بعد بھی اس کی حدود، کُل بجٹ، یا توسیع کی خواہشات واضح نہیں ہیں۔ تاہم جب افریقہ اور چین کے تعلقات کی بات آتی ہے تو بی آر آئی معاہدوں پر دستخط کرنے والے پہلے افریقی ممالک نے 2017 میں مُبہم صورتحال کے باوجود چین کے اس ہمہ گیر منصوبے میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کے بعد، کوویڈ-19 کی عا لمی وبا نے کئی افریقی ممالک کو اپنے ابتدائی بی آر آئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش کو مزید تاخیر سے دوچار کیا۔

فریقہ میں نسبتاّ نئے اقدام کے طور پر، بی آر آئی منصوبے کے دیر پا اور دوررس اثرات کی جانچ ابھی پوری طرح سی نہیں کی گئی ہے۔ اس کے باوجود، ہم 2021 میں کئے گئے افروبیرومیٹر سروے سے جانتے ہیں کہ سروے میں شامل 63 فیصد افریقیوں کا خیال ہے کہ اُن کے ممالک میں چین کا معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ مثبت ہے۔ اسی طرح، بی آر آئی کے لئے کی گئی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے زیرِ عمل لانے کے امکانات سیاسی اشرافیہ کے لئے باعثِ کشش ہیں۔ مثال کے طور پر، الجزائر کے صدر تبون نے گزشتہ ماہ چین کے سرکاری دورے کے دوران کہا تھا کہ ملک بی آر آئی میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے اور انہوں نے ٹیکنالوجی، توانائی اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں چین اور الجزائر کے مابین تعاون کو وسعت دینے کے لئے 19 معاہدوں پر دستخط کئے۔

گزشتہ چند سالوں سے افریقہ میں بی آر آئی کے متعدد منصوبوں کی مالی استقامت اور استحکام کے حوالے سے کئی خدشات پائے جاتے ہیں۔ بی آر آئی بندرگاہ سے متعلق بنیادی ڈھانچے کے منصوبے اور معدنی وسائل نکالنے کے معاہدوں سمیت کچھ منصوبوں نے میڈیا کی کافی توجہ حاصل کی ہے اور یہ دونوں مغربی حکومتوں کی نظر میں معاشی حکمتِ عملی کے لحاظ سے کَلیدی منصوبے سمجھے جاتے ہیں۔ افریقیوں کے لئے، معاشی لحاظ سے اِس کَلیدی سرمایہ کاری اور اہم خام معدنیات پر مسابقت ایک نعمت کے ساتھ ساتھ نِقمَت بھی ہو سکتی ہے۔ افریقی رہنماؤں اور متعلقین کو زیادہ وسیع پیمانے پر اپنے آپ کو عالمی اقتصادی رجحانات جیسے قدرتی ایندھن سے پیدا کی جانے والی توانائی کے مقابلے میں قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی میں فعال شراکت دار کے طور پر پوزیشن میں رکھنا ہے۔ اس لئے اِن افریقی ممالک کے نزدیک، یہ بات زیادہ اھم ہے کہ وہ الیکٹرک بیٹریوں، گاڑیوں اور دیگر اعلیٰ قدر والی صنعتی مصنوعات کے پیداواری عمل میں حصہ لینے کے امکانات اور صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور صرف کم قیمت والی خام معدنیات کی برآمد پر انحصار کرنے سے بچیں۔ معاشی لحاظ سے افریقی ممالک عالمی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں اگر وہ اپنی استعداد کو صحیح طریقے سے کام میں لاتے ہوئے بی آر آئی یا دیگر بین الاقوامی تعاون کے فریم ورک کے تحت قدر افزودگی کے معاہدوں پر بات چیت کرتے ہیں۔

مارگریٹ مائرز

ڈائریکٹر، ایشیا اور لاطینی امریکہ پروگرام انٹر امریکن ڈائیلاگ

پچھلے کچھ سالوں میں لاطینی امریکہ کے ساتھ چینی اقتصادی تعلقات میں کمی آئی ہے۔ چاہے بی آر آئی کے ذریعے ہو یا زیادہ وسیع پیمانے پر، کیونکہ چند ایک لاطینی امریکی ممالک جن میں برازیل، کولمبیا اور دیگر ممالک شامل ہیں تکنیکی طور پر بی آر آئی کے رکن نہیں ہیں۔

اس کمی کا اطلاق تجارتی تعلقات پر نہیں ہوتا، جس نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چین اور لاطینی امریکہ کے درمیان تعلقات کو تقویت بخشی ہے، جس کی وجہ چین کی خوراک، توانائی اور وسیع تر سپلائی چین سیکیورٹی ہے۔ لیکن سرمایہ کاری اور مالیات سست روی کا شکار ہیں کیونکہ چینی کمپنیاں چین کی اپنی اقتصادی ترقی کے مقاصد کی تائید کرنے والے شعبوں میں چھوٹے منصوبوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ توانائی کی پیداوار اور ترسیل کے اثاثوں کے حصول پر وسیع توجہ کے علاوہ، بی آر آئی جیسے میگا پروجیکٹس میں چینی دلچسپی کو بہت سے معاملات میں تکنیکی اور جدت طرازی سے متعلق منصوبوں اور ان کی معاونت کرنے والی معدنیات اور دھاتوں پر توجہ مرکوز کرنے سے بدل دیا گیا ہے۔

خطے کے ساتھ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے چین کے تعلقات سے حاصل ہونے والے اسباق نے بھی بی آر آئی کے مستقبل کے امکانات کو تشکیل دیا ہے۔ وینزویلا، جو پہلےکبھی لاطینی امریکہ میں چینی توجہ کا بنیادی وصول کنندہ تھا۔ اب چینی بینکوں اور کمپنیوں کے لئے سرفہرست ممالک میں شامل نہیں ہے۔ چینی کمپنیاں بظاہر خطے کے کچھ حصوں میں بڑے سیاسی خطرے کی وجہ سے مایوس ہیں۔ ابھی جبکہ یہ کمپنیاں بڑھتے ہوئے خودمختار قرضوں کا انتظام کر رہی ہیں، کچھ لاطینی امریکی حکومتیں بھی بظاہر چین کے تعاون سے چلنے والے مزید منصوبوں کو آگے بڑھانے میں محتاط نظر آتی ہیں۔ چلی میں، بعض سیاست دانوں نے چین پر اس ملک کے معاشی انحصار کی نوعیت کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، حالانکہ وہاں سرمایہ کاری اب بھی خطے کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ محدود ہے۔

لاطینی امریکہ میں چین کے ابھرتے ہوئے مفادات ایک مخلوط ماحولیاتی ریکارڈ کو یقینی بنائیں گے، جیسا کہ اس نے سبز بی آر آئی کا وعدہ کیا ہے۔ چین نے قابل تجدید توانائی کے حل کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ الیکٹریفیکیشن (ٹرانسپورٹ کو برقی توانائی سے چلانے کے قابل بنانا) میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اہم معدنیات کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے کان کنی کے شعبے میں چینی کمپنیوں کی سرگرمی میں اضافہ ہوا ہے۔ چین لاطینی امریکہ میں بڑے پیمانے پر سویا اور دیگر زرعی پیداوار کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے، جس کے ماحولیاتی استحکام پر اثرات پڑتے ہیں۔

اونٹیریلاڈو (تریلا) موسسز

ڈیٹا تجزیہ کار، بوسٹن یونیورسٹی گلوبل ڈویلپمنٹ پالیسی سینٹر

اپنے آغاز سے لے کر اب تک بی آر آئی نے ترقی پذیر ممالک کے لئے دستیاب امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی مقدار میں اضافہ کیا ہے۔ 2008 سے 2021 تک، چین کے دو ترقیاتی مالیاتی اداروں، چائنا ڈیولپمنٹ بینک اور ایکسپورٹ-امپورٹ بینک آف چائنا، نے اکیلے تقریباً نصف ٹریلین (پانچ سو ارب امریکی ڈالر) کے خودمختار قرضے فراہم کئے۔

یہ قرضے عالمی بینک (دی ورلڈ بینک) جو کہ دنیا کا سب سے بڑا ترقیاتی بینک ہے اس کے جاری کردہ قرضوں کے تراسی فیصد کے برابر ہے۔ بینک کے اس طرح کے قرضوں نے ایشیا، افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکہ اور کیریبین ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے سرمائے تک نئی رسائی فراہم کی ہے۔ خاص طور پر اس کا زیادہ تر حصہ اُن منصوبوں کی طرف گیا جو روایتی دو طرفہ قرض دہندگان سے مالی اعانت کے لئے نااہل تھے۔

اس کے ساتھ ہی، بی آر آئی مالیات کی توسیع نے ماحولیاتی استحکام اور بی آر آئی وصول کنندگان کے قرض پروفائلز کے لئے خطرات کو بڑھا دیا۔ چینی قرضوں کو بڑے پیمانے پر فوسل فیول انرجی پروجیکٹس (قدرتی ایندھن سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں ) کے لئے مختص کیا گیا تھا اور کچھ معاون پروجیکٹس ماحولیاتی طور پر حساس علاقوں سے گزرتے ہیں، جس سے وصول کنندہ ممالک، حیاتیاتی تنوع اور مقامی آبادیوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ کوویڈ-19 کی عالمی وبا کی وجہ سے کئی بی آر آئی مالیات وصول کنندگان کو قرضوں کے بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، حالانکہ اِن ممالک میں نام نہاد “قرض کے جال کی ڈپلومیسی” ثابت نہیں ہوئی ہے۔

یہ نتائج جزوی طور پر اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ چین میں ترقیاتی کاموں کے لئے مالیاتی اداروں کے ذریعے فراہم کئے جانے والے قرضوں میں کمی ہوئی ہے۔ 2016 کے اوائل میں، چین کے مالیاتی ریگولیٹرز نے بیرون ملک مقیم بینکوں کے لئے خطرے کی روک تھام اور سبز مالیات ( ایسے منصوبوں کے لئے مالیاتی مدد کی فراہمی جس سے ماحول میں آلودگی نہ پھیلے) کے متعدد رہنما اُصول مرتب کئے، اور ساتھ ہی چین نے 2019 میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے دوران رسک مینجمنٹ (خطرے کے انتظام) اور قرضوں کی بروقت اور مکمل ادائیگی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے طریقوں پر زور دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ چین اب بی آر آئی (BRI) مالی امداد کے ذریعے اندرونِ خانہ اور وصول کنندہ ممالک کو در پیش مالیاتی اور ماحولیاتی مسائل حل کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ چین کے بیرون ملک موجود قرض دہندگان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ماحولیاتی اور سماجی طور پر زیادہ فائدہ مند منصوبوں کے لئے چھوٹی قدروں میں مالی اعانت فراہم کریں۔ دریں اثنا، چین کی مالیاتی مدد قرضوں سے آگے بڑھ کر ایک براہِ راست سرمایہ کاری میں تبدیل ہو رہی ہے جس سے نفع حاصل ہو اور یہاں تک کہ چین کے بیرونِ ملک ترقیاتی سرمایہ کاری فنڈز میں بھی ترمیم ہورہی ہے اور اِسی لئے سلک روڈ فنڈ کو بھی متنوع بنایا جا رہا ہے۔ بی آر آئی (BRI) مالیاتی مدد کا یہ سلسلہ مرحلہ وار ختم ہونے کے بجائے مستقبل میں مالیاتی اور ماحولیاتی استحکام پر زیادہ توجہ مرکوز کرکے ممکنہ طور پر اپنی تنظیم اور دائرہ کار کو تبدیل کرے گا۔ کیونکہ اس بات کا زیادہ اِمکان ہے کہ یہ آگے جا کر گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو جیسے دیگر اقدامات کے ساتھ جڑ کر کام کرے گا۔

زوفین ابراہیم 

صحافی، پاکستان

میں 1970 اور 1980 کی دہائی میں صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پلی بڑھی اِس لئے بہت سے چینیوں کو جانتی تھی۔ عورتوں کے لئے ہیئر اور بیوٹی سیلون چینی خواتین کی زیرِ ملکیت تھے اور وہی اِن کا انتظام سنبھالتی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ اِن لوگوں کے بہترین چینی ریستوران تھے اور اِن کا یہ کاروبار خوب پھلا پھولا۔ وہ سبھی اردو اور انگریزی میں بات کرتے تھے۔ پاکستانی لباس پہنتے تھے اور ان کے بچے ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ برسوں بعد 2010 کی دہائی میں چینی کارکنوں کی ایک نئی لہر پاکستان آئی۔ اس بار وہ بینکرز، کمپنی مالکان، انجینئرز، تعمیراتی اور کان کنی کے کارکن تھے، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) کے تحت بنیادی ڈھانچے کے کئی منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔

لیکن ہم اُن کے ساتھ زیادہ گُھلے ملے نہیں۔ زبان کی اِس بڑی رکاوٹ کے ساتھ ساتھ زیادہ تر چینی کارکن سخت سیکیورٹی میں اپنی پروجیکٹ سائٹس پر کمپاؤنڈز(مزدوروں کے رہنے کا کشادہ احاطہ) میں ہی رہتے ہیں۔ وہ عام پاکستانیوں کے ساتھ بہت کم ملتے جلتے ہیں اور اسی وجہ سے کبھی بھی پاکستانی ثقافت کا براہ راست تجربہ نہیں کرپاتے۔

گزشتہ ایک دہائی میں سی پیک (CPEC) پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی کی حیثیت سے مجھے بہاولپور میں سولر فارم (بجلی پیدا کرنے کے لئے سولر پینلز کی بڑے رقبے پر تنصیب) میں کام کرنے والے چینی انجینئر، تھرپارکر میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے چینی ملازمین یا گوادر میں بندرگاہ کے کسی افسر سے بات کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے طویل عمل سے گزرنا پڑا ہے۔ اور اس وقت بھی وہ صرف اپنے کام کے بارے میں بات کرتے تھے۔ یہ معلوم کرنا تقریباً ناممکن تھا کہ پاکستان میں رہنا اور کام کرنا ان کے لئے کیسا تھا۔ باہم میل جول اور رابطے کی کمی نے چینی اور پاکستانی لوگوں کے درمیاں چینی منصوبوں کے بارےمیں شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کو جنم دیا ہے۔

مزید برآں، سی پیک (CPEC) نے مسلسل حد سے زیادہ وعدے کئے ہیں مگر اِس کے مقابلے میں کم کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سی پیک ایک “گیم چینجر” ہے جس نے پاکستانیوں کے لئے تقریباً دو لاکھ ملازمتیں پیدا کی ہیں۔لیکن میں نے کئی پروجیکٹ سائٹس کا دورہ کیا ہے اور وہاں کے مقامی لوگ اکثر ناراضگی کا اِظہار کرتے ہیں اور روزگار کے مواقعوں میں کمی کی شکایت کرتے ہیں۔ اِس غیر شفافیت نے چین کے پاکستان کو دیئے جانے والے قرضوں کے حوالے سے شکوک و شبہات کو بھی جنم دیا ہے جو سی پیک منصوبوں کے لئے قرض پر مبنی مالی امداد کے نتیجے میں مزید بڑھا ہے جبکہ کول پاور پلانٹس (کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس) ابھی زیر تعمیر ہیں۔

میری ذاتی رائے کے مطابق، جیسے جیسے سی پیک اپنی دوسری دہائی میں داخل ہو رہا ہے۔اُسے پاکستانی عوام کا اعتماد حاصل کرنے اور اُن کا نقطہ نظر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اوپر سے نیچے کی طرف بلحاظِ مراتب نقطہ نظر کو ترجیح دینے کے بجائے مقامی لوگوں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور اُنہیں بیلٹ اینڈ روڈ کے اِس بڑے منصوبے پر ملکیت اور اختیار دیں۔

سی پیک کی بہتر میڈیا کوریج (ذرائع ابلاغ میں کھل کر بات کر نے) کی اجازت دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا درحقیقت طرفین کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی کو بہتر بنانے کی طرف ایک قدم ہوگا۔ چاہے صحافی اِس منصوبے کے حوالے سے کتنی ہی کوتاہیوں کی نشاندہی کریں۔ چین کو تنقید کی اجازت دینی چاہیے اور کسی قسم کا معاشی یا جغرافیائی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔

ڈائیلاگ ارتھ ایک کثیرالزبان پلیٹ فارم ہے جو ہمالیہ کے آبی بہاؤ اور وہاں سے نکلنے والے دریاؤں کے طاس کے بارے میں معلومات اور گفتگو کو فروغ دینے کے لئے وقف ہے.