دسمبر 2019 میں چین سے شروع ہونے والے کرونا وائرس نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گنتی کے چند ممالک کے علاوہ دو سو سے زائد ممالک میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ اس وائرس سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہا۔ معلومات تک رسائی قانون (آر ٹی آئی) کے تحت حاصل شدہ معلومات کے مطابق آخری اطلاع تک آٹھ ہزار سے زائد لوگوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں 160 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
اس طرح خیبر پختونخوا بھی کرونا کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ آخری اطلاع تک آٹھ سو سے زائد لوگ کرونا وائر س سے متاثرہیں جب کہ 20 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 9 اضلاع پر مشتمل مالاکنڈ ڈویژن بھی کرونا سے محفوظ نہیں۔ مالاکنڈ ڈویژن کے 7 اضلاع سوات، اپر دیر اور لوئر دیر، مالاکنڈ، بونیر، شانگلہ اور باجوڑ میں 192 کرونا کے کیسوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔ ان میں 9 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ مالاکنڈ ڈویژن کے اَپر اور لوئر چترال واحد دو خوش قسمت ضلعے ہیں، جہاں پر کرونا کا کوئی کیس تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔
مالاکنڈ ڈویژن کا دارالخلافہ سوات جو کہ سیاحتی علاقہ ہے، یہاں پر بھی کرونا نے پنجے گاڑھ دیے ہیں۔ محکمہ صحت سے حاصل شدہ اب تک کی معلومات کے مطابق 84 لوگوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں 8 افراد نے جان کی بازی ہاری ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں اب تک مشتبہ کیسیز کی تعداد 1859 ہے اور منفی کیسیز 1262 اسی طرح کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی تعداد 53 ہے اور 322 ٹیسٹوں کا رزلٹ آنا باقی ہے۔
سوات میں کرونا وائرس سے متاثر پہلے شخص امریکہ پلٹ ڈاکٹر جواد عالم ہیں، جو اب صحت یا ب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا ہے کہ اس کے کے کچھ کلاس فیلوز میں یہ وائرس موجود تھا، جب وہ امریکہ سے دبئی پہنچے، تو انہیں اس کا شک ہوا کہ وہ متاثر ہیں۔ جب وہ پاکستان پہنچے، تو انہوں نے فوری طور پر ٹیسٹ کروایا، جس سے ان کا شک یقین میں بدل گیا۔
ڈاکٹر جواد کے مطابق انہوں نے بارہ دن تک خود کو قرنطینہ میں رکھا۔ اب ان سے لوگ پوچھتے ہیں کہ اس دوران ان کی حالت کیا تھی؟
انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کو تین یا چار دن تک شدید بخار تھا، بعد میں ان کو کھانسی بھی ہوئی، مگر بغیر کسی دوا کے وہ صحت یاب ہو گئے۔ اس دوران ان کو نہ تو ٹینشن ہوئی اور نہ ہی ذہنی دباؤ۔
ڈاکٹر جواد نے کہا کہ کرونا وائرس کا کوئی علاج نہیں ہے، مگر انسان کی قوتِ مدافعت اس کو بچا لیتی ہے۔ اس دوران صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بیماری کے دوران سوشل میڈیا سے دور رہیں۔ کیوں کہ سوشل میڈیا پر زیادہ تر غلط خبریں چلتی ہیں، جس سے انسان پر برا اثر پڑتا ہے۔ دورانِ بیماری اپنی خوراک کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ پانی زیادہ پینا چاہیے۔ اس طرح وٹامن سی کی بھی ضروت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جواد نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ کرونا لگنا موت کے منہ میں جانا ہے۔ اس سے زیادہ تر لوگ صحت یاب ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو خوش رکھیں، جن لوگوں کو یہ بیماری نہیں ہے، ان کو بھی چاہیے کہ اپنی خوارک کا خاص خیال رکھیں۔ مصنوعی خوراک کم کریں۔ فائین آٹا، تیل اور گھی کا استعمال کم سے کم کریں۔ سبزیاں اور دالیں زیادہ کھائیں۔
دوسری جانب مریضوں کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ کرونا کے لئے انتظامات ناقص ہیں۔ اول تو کرونا ٹیسٹ کا نظام انتہائی غیر معیاری ہے۔ ڈاکٹر صرف ان لوگوں کا ٹیسٹ کرتے ہیں جو آخری سٹیج پر ہوں، یا ان کا اثر و رسوخ ہو۔ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنی رقم کے عوض ٹیسٹ کرانا پڑتا ہے۔ ٹیسٹ کی فیس آٹھ ہزار سے زائد ہے۔ اس طرح ٹیسٹ کا نتیجہ بھی دو سے تین دنوں میں ملتا ہے۔ مریضوں کے لئے بھی انتظامات اتنے تسلی بخش نہیں ہیں۔ سوات میں میڈیکل کے متعدد اہلکار بتاتے ہیں کہ ان کو کرونا سے بچاؤ کے لئے کٹس نہیں دیے گئے ہیں، یہاں تک کہ فیلڈ میں کام کرنے والوں کو ماسک اور دستانے تک میسرنہیں۔
اس بارے میں کمشنر مالاکنڈ ڈویژن ریاض خان نے کرونا وائرس کی روک تھام اور اقدامات کے حوالے سے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں پر من وعن عمل کیا جا رہا ہے۔ عوام کی بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ اور اندورنِ اضلاع پابندی لگا دی گئی ہے۔ حکومت نے صرف ضروری اشیا اور ادویات کی دکانیں کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ کرونا وائرس کا واحد علاج یہ ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں۔ ہم نے مالاکنڈ ڈویژن میں ہنگامی اقداما ت کیے ہیں۔ تمام طبی عملے کی چھٹیاں منسوخ ہیں۔ کرونا کے ممکنہ متاثرین کے لئے ہسپتالوں میں اضافی بیڈز لگا دیے ہیں۔ ڈویژن بھر میں اشیائے خوردونوش کی دستیابی کے لئے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات دے رکھی ہیں۔ قیمتوں پر بھی کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کے ملاکنڈ ڈویژن میں چترال واحد ضلع ہے، جہاں پر کرونا وائرس نہیں ہے۔ اس کو بچانے کے لئے چترال کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں، جو لوگ جانا چاہتے ہیں، پہلے وہ چودہ دن تک سرکاری قرنطینہ سنٹر میں گزاریں گے۔
کمشنر مالاکنڈ کا کہنا ہے کہ ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج باہر ملکوں سے آئے ہوئے پاکستانی ہیں۔ اس وقت خیبرپختونخوا میں 46 ہزار سے47 ہزار تک لوگ باہر کے ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔ ان میں 14ہزار لوگ مالاکنڈ ڈویژن کے بھی شامل ہیں۔ سوات میں 4 ہزار افراد باہر کے ممالک سے آئے ہیں۔ ان میں سے ہم نے 15 سو لوگوں کی سکرینگ کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس کرونا ٹیسٹ کی لیبارٹری موجود نہیں، ہم پشاور اور اسلام آباد میں ٹیسٹ کراتے ہیں۔ رش کی وجہ سے ٹیسٹ میں دیر ہوجاتی ہے۔ کرونا سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس بجٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے سارے اداروں نے دن رات ایک کر دیے ہیں۔ اس میں محکمہ صحت کے اہلکار ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ پولیس، ضلعی انتظامیہ، سیاسی و سماجی شخصیات اور نجی ادارے بھی ہمارے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔
سوات میں کرونا وائرس کے انتظامات اور اس سے بچاؤ کے بارے میں الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن کے صدر اور سینئر صحافی نیاز احمد خان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس پاکستان کے لئے نیا یا اچانک نہیں تھا۔ اس وائرس کی وجہ سے چین میں ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ ہزاروں ہلاک ہوئے، تو پاکستان کی حکومت کو احساس تھا کہ یہ وائرس پاکستان میں داخل ہو گا۔ اس سے بچاؤ کے لئے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ وائرس پاکستان میں داخل ہوا۔ بغیر سکریننگ کے یورپ، سعودی عرب اور ایران سے متاثرہ لوگ پاکستان میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد جب یہ پھیلا تو ٹیسٹ کا نظام انتہائی خراب ہے۔ مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس طرح عام لوگوں میں بھی اس سے بچنے کے لئے وہ سنجیدگی نہیں پائی جاتی جو ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا اور خصوصاً مالاکنڈ ڈویژن میں پہلے ہی سے طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ وائرس زیادہ ہوا، تو اس کے نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔ یہاں کے ڈاکٹروں کے پاس بھی وہ سہولیات نہیں جو کہ ہونی چاہئیں۔ ضلع انتظامیہ کی طرف سے بعض اقدامات حوصلہ افزا ہیں، مگر اس کے لئے مزید اقدامات اور طبی سہولیات دینے کی ضرورت ہے۔
معلومات تک رسائی قانون کے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں سرکاری طبی سہولیات کے بارے میں حاصل شدہ معلومات کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن کے 9 اضلاع میں سے 7 (جن میں اپر اور لوئر چترال شامل نہیں،ان کے اعداد وشمار محکمہ صحت دینے میں ناکام رہا) کی ایک کروڑ آبادی کے لئے 14 سو کوالیفائڈ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں، جن میں تین سو کے قریب پیرامیڈیکل، نرسز اور دیگر طبی عملہ بھی کام کر رہا ہے۔ اس طرح چھوٹے بڑے ہسپتالوں سمیت دوسو پچاس کے قریب طبی مراکز قائم کئے گئے ہیں۔
کرونا کے ممکنہ مریضوں کے لئے ملاکنڈ ڈویژن میں 59 آئی سولیشن وارڈ قائم کئے گئے ہیں، جن میں 1296 کمرے ہسپتالوں میں مختص کئے گئے ہیں۔ اس طرح فی الحال71 قرنطینہ سنٹر بنائے گئے ہیں، جن میں مریضوں اور طبی عملے کے لئے 1742 کمرے تیار کیے گئے ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق انہوں نے ایمرجنسی بنیادوں پر سرکاری سکولوں، کالجوں اور ہاسٹلوں میں بھی قرنطینہ سنٹر بنانے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔
اس طرح مالاکنڈ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں قائم ہوٹلوں کے مالکان کی رضامندی سے مختصر نوٹس پر ہوٹلوں میں بھی قرنطینہ سنٹر قائم کئے جاسکتے ہیں۔