دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اپنی زندگیاں انسانیت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ مسیحائے انسانیت عبدالستار ایدھی مرحوم اور ان کی اہلیہ بیگم بلقیس ایدھی مرحومہ کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں بیگم بلقیس ایدھی 74 برس کی عمر میں کراچی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ انہوں نے سو گوارا ن میں چار بچوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں وہ بچے چھوڑے جن کی وہ دیکھ بھال کرتی رہی تھیں۔ بیگم بلقیس ایدھی نے بھی اپنے خاوند کے شانہ بشانہ انسانیت کی خدمت اور لاوارث بچوں کی دیکھ بھال کے لئے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔
انہوں نے نرس کے طور پر اپنی زندگی کا آغاز ٹین ایج میں ایدھی مرحوم کی قائم کردہ چھوٹی سی ڈسپنسری سے کیا۔ ایدھی مرحوم نے ان کا انسانیت کے لئے کام کرنے کا جذبہ دیکھ کر انہیں شادی کی پیشکش کی اور یوں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ ۔شادی کے وقت بھی عبدالستار ایدھی مرحوم کے مالی حالات اتنے اچھے نہ تھے اور وہ ویسے بھی زندگی بہت سادگی سے اور کفایت شعاری سے بسر کرنے کے عادی تھے۔ بیگم بلقیس کو ان کے کئی جاننے والوں نے شادی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا کہا۔ ان کی بعض دوستوں نے مذاق میں یہ بھی کہا کہ تم کسی پکنک پر جانے کا کہو گی اور تمہارا خاوند تمہیں قبرستان لے جایا کرے گا مگر وہ اپنے فیصلہ پر قائم رہیں۔ شادی کے بعد ہنی مون کا عرصہ انہوں نے اپنی ڈسپنسری میں ایک 12 برس کی بچی کے علاج میں صرف کیا۔
انہوں نے ایدھی صاحب کی شروع کردہ جھولا سکیم کی دیکھ بھال کا چارج سنبھال لیا۔ لگ بھگ تین سو کے قریب جھولے پورے پاکستان میں اس پیغام کے ساتھ نصب کئے گئے کہ “بچے کو جان سے مارنے کی بجائے اس جھولے میں چھوڑ جاؤ” تاکہ وہ ماں یا باپ جو اپنی اولاد کو کسی وجہ سے اپنانا نہیں چاہتے وہ ان جھولوں میں چپ کر کے بچے کو چھوڑ سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کی دیکھ بھال کا ذمہ ایدھی فاؤنڈیشن کا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن نے پاکستان میں ہزاروں بےاولاد خاندانوں کو بچے گود لینے میں مدد کی ہے اور اس میں بڑا کردار بیگم بلقیس مرحومہ کا تھا۔ اسی وجہ سے بلقیس ایدھی کو پاکستان کی ماں بھی پکارا جاتا ہے۔ ان دونوں مرحومین میاں بیوی نے مل کر انسانیت کے لئے قائم فاؤنڈیشن کے ذریعے پچھلے پچاس برسوں میں انسانیت کی بے لوث اور بے غرض مدد کی ہے۔ انہیں بارہا موت کی دھمکیوں اور اپنی فاؤنڈیشن پر حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ، انہیں بعض مذہبی تنظیموں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ ان تنظیموں کے بقول جھولا سکیم کی وجہ سے شادی کے بغیر بچے پیدا کر کے چوری چھپے پھینکنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ اس سب کے باوجود اس عظیم جوڑے کے جذبہ انسانیت میں کوئی کمی نہ آئی کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ اس سب میں اس معصوم بچے کا کیا قصور ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایمبولینس سروس کو دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
بیگم بلقیس ایدھی کو ان کی خدمات کا اصل صلہ تو اللہ پاک دے گا مگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو انہیں مدَرٹریسامیموریل انٹرنیشنل ایوارڈ، لینن پیس پرائز اور ہلال امتیاز وغیرہ جیسے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی وفات کے موقع پر تمام انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے دل دُکھی تھے۔اس موقع پر ان کے بیٹےفیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے مشن کو آگے لے کر بڑھیں گے۔ان کی تدفین کراچی میں سندھ حکومت کی طرف سے سرکاری اعزاز کے ساتھ ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کی خدمت ہر قسم کے فرقہ و مذہب سے بالاتر ہو کر کرنا ہی زندگی کا نصب العین ہونا چاہیۓ جس کو بیگم بلقیس ایدھی مرحومہ نے اپنے خاوند کے ساتھ مل کے کر دکھایا۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔