رپورٹر صرف خبر ہی نہیں لکھتا۔ وہ لمحہ موجود کو تاریخ کے پنوں میں محفوظ بھی کر رہا ہوتا ہے۔ اور یہی تاریخ بتاتی ہے کہ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی توہین پہلی بار نہیں ہو رہی اور نہ ہی اس قسم کی تقسیم جو اس وقت عدلیہ میں دکھائی دے رہی ہے، ہمارے لئے نئی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کی جانبداری، اپنی اقدار، روایات، فیصلوں اور آئین تک سے انحراف کوئی پہلی بار ہو رہا ہے؟ حکومت وقت پہلی بار توہین عدالت کی مرتکب ہو رہی ہے؟ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار صورتحال جس طرح U ٹرن لے رہی ہے، یہ پہلی بار ہے۔
بات اتنی سادہ نہیں جتنی کہ دکھائی دے رہی یا دکھائی جا رہی ہے۔ حالات کی سنگینی بہت زیادہ ہے۔ عام مسند انصاف پر بیٹھ کر دروغ گوئی کی روایات بھی قائم ہو رہی ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہی تو اٹارنی جنرل نے سکیورٹی حالات کی بات کی تھی۔ یہ بھی کہا تھا کہ سکیورٹی خطرات پر بریفنگ بند کمرے میں دی جا سکتی ہے۔ جج صاحب نے لیکن کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ اور پھر جب بند کمرے میں بریفنگ دی گئی تو کہا گیا کہ یہ پہلے کیوں نہیں بتایا؟
خیر، معاملات کو آگے تو بڑھنا تھا۔ مذاکرات کا عدالتی مشورہ آ گیا۔ مگر سنجیدگی کا عنصر عنقا۔ ملفوف خواہش کی دبی چنگاری البتہ سلگتی دکھائی دی۔ اور شاید اگلے دنوں میں یہ آگ پکڑ لے۔
بظاہر معاملہ 27 اپریل تک جا چکا۔ امید کے روشن چراغوں کے ساتھ۔ مگر وہ ہے نہیں جو سامنے دکھ رہا ہے۔ عدالت کے وہ 19 اپریل کے ریمارکس، پارلیمان کی نیت پر شک، آئین کے آرٹیکل 164 کے تقاضے کے تحت فیڈرل کنسالیڈیٹڈ فنڈ سے متعلق قومی اسمبلی میں ایک نہیں منظور ہونے والی دو قراردادوں پر سوالات کا اٹھانا، سنگین نتائج کے واضح اشارے، آرڈر کی فیلڈ میں موجودگی کی باتیں، وہ تین شخصیات بند کمرے کے بجائے کھلی عدالت میں آ جاتے جیسے جملے، اور پھر مذاکرات پر اصرار اور شام تک کی مہلت بے سبب نہیں، بلکہ یہ واضح اشارہ ہے کہ پردہ کے پیچھے ابھی بہت کچھ سامنے آنے کے لئے موجود ہے۔
رہی حکومت تو اسے تو مہلت درکار تھی، سو مل گئی۔ ن لیگ البتہ پچھلے چند روز ایک پریشانی کا شکار رہی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بلاول بھٹو کی عبدالخیل سے روانگی کے بعد جس حکومتی رابطہ کی بات کی وہ رابطہ خواجہ سعد رفیق اور سردار ایاز صادق نے ٹیلی فون پر کیا، اور مقصد مولانا کو سپریم کورٹ کی منشا اور ڈیڈ لائن کے مطابق مذاکرات پر قائل کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
مولانا تو مذاکرات پر آمادہ ہی نہیں۔ ان ک جانب سے پنچایت ہے یا عدالت والا مطالبہ البتہ بے سبب نہیں۔ یہ صرف ان کا مطالبہ نہیں ہے۔ تمام پی ڈی ایم جماعتیں ان کے مطالبے میں شامل ہیں۔ بلکہ مذاکرات کا ڈول ڈالنے والی پیپلز پارٹی بھی ایک معاملے میں مولانا کی ہم آواز بن چکی، اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی یہ بات کسی اور کے لئے نہیں بندیال صاحب کے لئے ہی کی ہے کہ بندوق کی نوک پر کوئی ہم سے مذاکرات نہیں کروا سکتا۔
سپریم کورٹ کی مذاکرات کی ہدایت پر مولانا اور بلاول کا رد عمل بے سبب نہیں۔ اشارہ ہے کہ تصادم ناگزیر ہے۔ اس کی جانب پیش قدمی بھی ہو چکی۔
ان حالات کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پارلیمان جسے اسٹیبلشمنٹ نواز سیاست دان خود بے توقیر کر کے کہا کرتے تھے کہ پارلیمان کچھ کر نہیں رہی، کمزور ہے، اس میں بیٹھے لوگوں کو اب یہ احساس ہو چکا۔ اسی لئے حکومتی اتحادی اور پارلیمان کے اندر موجود عمران مخالف پی ٹی آئی والے اسے مضبوط بنانے پر تل گئے ہیں۔
اب اشارے مل رہے ہیں کہ پارلیمان بڑے بڑے فیصلے کرے گی، اور جھکے گی نہیں۔ جب تک پارلیمان خود کو نہیں منوائے گی، جمہوریت پر کسی نا کسی شکل میں شب خون مارنے کی کوششیں بھی جاری رہیں گی اور انصاف کا خون بھی ہوتا رہے گا۔