اتحاد ٹوٹ گیا: عدلیہ ہاتھ سے نکل رہی ہے

اتحاد ٹوٹ گیا: عدلیہ ہاتھ سے نکل رہی ہے
آج سے ٹھیک تین ہفتے قبل 'اس اتحاد کا خاتمہ ضروری ہے' کے عنوان سے اپنے کالم میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اتحاد کے ملکی سیاست پر پڑنے والے اثرات پر اپنے احساسات کو قلم بند کیا تھا۔ گذشتہ نصف صدی سے ملکی سیاست میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کو اتنا قریب سے دیکھنے کے بعد یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس ملک کی ہر خرابی کی جڑ یہ اتحاد ہی ہے اور جب تک یہ ختم نہیں ہو گا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ہماری عدلیہ نے سیاسی قوتوں کے مقابلے میں ہمیشہ غیر سیاسی قوتوں کو اپنی حمایت فراہم کر کے سیاسی قوتوں کو پنپنے ہی نہیں دیا۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہمارے وزیراعظم نے تقریر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور آنے والے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار کو مخاطب کرتے ہوئے شکوہ کیا تھا کہ ملک میں قائم اس تاثر کو دور کیا جائے کہ یہاں طاقتور اور کمزور کیلئے الگ الگ قانون ہے، جس پر اگلے ہی روز جناب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جواب دیا کہ ہماری نظر میں صرف قانون طاقتور ہے کوئی شخصیت نہیں۔ ساتھ ہی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک وزیراعظم کو ہم نے نااہل کیا اور ایک کو convict کیا اور ایک طاقتور کا مقدمہ آخری مراحل میں ہے۔

تین دن قبل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سننے کیلئے بنائی گئی خصوصی عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں سزائے موت کا حکم سنایا تو وہ اسٹیبلشمنٹ جو نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف فیصلہ آنے پر عدالت کے احترام کا مشورہ دیتی تھی اپنے سابق چیف کے خلاف فیصلہ آنے پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی۔

جب تحریری فیصلہ جاری ہوا تو فوری پریس کانفرنس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ عدالت کا احترام کیا ہوا جس کی آپ دوسروں کو تلقین فرمایا کرتے تھے۔

یہ بات پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے خوش آئند ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا غیر مقدس اتحاد ٹوٹتا نظر آ رہا ہے۔ یقینا کوئی بھی ذی شعور پاکستانی اداروں کے درمیان کشیدگی کو پسند نہیں کرے گا لیکن ساتھ ہی پاکستان کا ہر شہری یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمام ادارے آئین میں دی گئی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دیں تاکہ سازش اور ملی بھگت کا تاثر ختم ہو۔

اب آتے ہیں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے اور اس پر ہماری اسٹیبلشمنٹ کے رد عمل کی طرف، تو یقیناً تحریری فیصلے یا اس کی زبان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن کیا پرویز مشرف خود ان جرائم سے انکار کر سکتے ہیں جن پر ان کو یہ سزا سنائی گئی ہے؟

کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ مشرف نے آئین کو معطل کیا؟

کیا انہوں نے ججز کو برطرف کر کے گھروں میں نظر بند نہیں کیا؟

کیا انہوں نے غیر قانونی طور پر پی سی او جاری نہیں کیا؟

اگر ریفرنڈم کرایا جائے تو پاکستان کا ہر شہری پرویز مشرف کو ان جرائم کا مرتکب قرار دے گا۔

بات اتنی سادہ بھی نہیں جتنی پاک فوج کے ترجمان نے کہی کہ پرویز مشرف نے چالیس سال اس ملک کی 'خدمت' کی اس لئے تفصیلی فیصلے میں استعمال کی گئی زبان اور سزا غیرمناسب ہے۔

سب جانتے ہیں کہ یہ خصوصی عدالت کا فیصلہ ہے جس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے پھر ہنگامہ کس بات پر برپا کیا ہوا ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ عدلیہ ہاتھ سے نکل رہی ہے اور اگر یہ سلسہ جاری رہا تو مستقبل میں اپنی مرضی کے فیصلے نہیں لیے جا سکیں گے (مرضی کے فیصلے کیسے لیے جاتے ہیں، اس کیلئے جسٹس شوکت صدیقی کا پنڈی بار سے خطاب سننا کافی ہے۔)۔

اپنے پچھلے کسی کالم میں گذارش کی تھی کہ اس ملک کے ساتھ بہت کھیل لیا اب سب کو ایک چھت تلے بیٹھ کر ماضی میں کی گئی غلط کاریوں کا اعتراف کر کے ایک نئے عمرانی معاہدے پر اتفاق کرنا ہوگا کیونکہ جب تک ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں نہیں رہے گا ہم دائروں کے سفر سے نہیں نکل سکیں گے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔