سیاست نوے کی دہائی میں، قسط 7: سیاچن گلیشئر پر قبضہ، واجپائی کی پاکستان آمد، اور مشرّف کی پیش بندی

سیاست نوے کی دہائی میں، قسط 7: سیاچن گلیشئر پر قبضہ، واجپائی کی پاکستان آمد، اور مشرّف کی پیش بندی
سیاچن گلیشئر کو دنیا کا بلند ترین میدان جنگ کہا جاتا ہے۔ سیاچن اور سرینگر کو آپس میں ایک ہی سڑک ملاتی ہے، جس کے ذریعے بھارتی فوج کو اسلحہ اور روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء پہنچائی جاتی ہیں۔ پاکستانی فوج کئی سال اس سڑک کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتی رہی لیکن ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آخرکار کسی بزرجمہر نے یہ حل نکالا کہ اگر پاکستان لداخ میں واقع کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لے تو وہاں سے اس سڑک کو نشانہ بنانا بہت آسان ہو جائے گا۔ اکتوبر 1998 میں پاکستانی فوج کی ناردرن لائٹ انفنٹری کے دستے خفیہ طور پر کارگل کی چوٹیوں کی جانب روانہ ہوئے۔ ہر سال سردی کے موسم میں بھارتی فوج کے جوان کارگل کا علاقہ شدید برف باری کی وجہ سے خالی کر دیتے تھے۔ ابتدائی پیش قدمی کے چھے ماہ بعد ایک اندازے کے مطابق دو ہزار پاکستانی سپاہی، بھارتی سرحد کے اندر دس کلومیٹر تک گھس کے کارگل کی چوٹیوں پر اپنا ٹھکانہ بنا چکے تھے۔



یہ بھی پڑھیے: سیاست نوے کی دہائی میں، قسط 6: تحریک انصاف کا ظہور، نواز شریف کی دوسری حکومت، اور کارگل میں جاری خوفناک کھیل







واجپائی کی پاکستان آمد پر جماعت اسلامی کی جانب سے ہلڑ بازی کا اہتمام

اس دوران سیاسی سطح پر پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی تھی اور وزیر اعظم نواز شریف نے اٹل بہاری واجپائی کو دہلی لاہور بس کے ذریعے لاہور آنے کی دعوت دی تھی جو انہوں نے قبول کی۔ پاکستانی جنرل اس پیش رفت پر خوش نہیں تھے۔ 20 فروری کو دہلی سے چلنے والی دوستی بس پر واجپائی واہگہ پہنچے تو سرحد کے دونوں جانب جشن کا سماں تھا۔ واہگہ بارڈر پر واجپائی کے استقبال کے دوران آرمی، ائرفورس اور نیوی کے سربراہ موجود نہیں تھے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے اس موقعے پر ہلڑ بازی کا اہتمام کیا گیا تھا۔

سفارتکاروں کی گاڑیوں پر مظاہرین کا پتھراؤ

پاکستانی سیاستدان عابدہ حسین نے واجپائی کی لاہور آمد کے دن کے متعلق اپنی خود نوشت میں لکھا کہ "وہ اپنے شوہر فخر امام اور نامور سفارت کار آغا شاہی کے ہمراہ گلبرگ میں اپنے گھر سے شاہی قلعہ کے لئے روانہ ہوئیں تو جانا کہ معاملہ گڑبڑ ہے، راستے میں ان کی گاڑی پر پتھراؤ ہوا اور اس کے شیشے ٹوٹ گئے۔ ڈرائیور جیسے تیسے کر کے گاڑی کو منزل تک لے گیا۔ شاہی قلعہ پہنچے تو سب سے پہلے میجر جنرل خالد مقبول سے سامنا ہوا تو عابدہ حسین کو لگا جیسے وہ ان کی حالت زار سے محظوظ ہو رہے ہوں۔ خاتون سیاست دان نے لکھا ہے کہ ان جیسا سلوک سفارت کاروں کی گاڑیوں کے ساتھ بھی ہوا کیونکہ انہوں نے تقریب میں سعودی سفیر اور آسٹریلیا کے ہائی کمشنر کو شکایت کرتے سنا۔"

کابینہ کے وہ رکن عسکری حلقوں میں کافی روابط رکھنے کی وجہ سے مشہور تھے

عابدہ حسین نے کابینہ کے اس اجلاس کا ذکر بھی کیا ہے جس میں واجپائی کے مجوزہ دورے پر بات چیت ہوئی. اس میں ایک وزیر نے فرمایا کہ ہمیں احتجاجاً اپنے مہمان کی گاڑی پر پتھر پھینکنے چاہئیں تا کہ ہندوستان کو کشمیری عوام سے ہماری یکجہتی کا اندازہ ہو۔ یہ لغو تجویز منظور تو نہ ہوئی، پر عابدہ حسین کا خیال ہے کہ کابینہ کے وہ رکن عسکری حلقوں میں کافی روابط رکھنے کی وجہ سے مشہور تھے، جس سے لگتا تھا کہ فوج کچھ مزاحمت ضرور کرے گی.

نواز شریف کے مطابق: "جماعت اسلامی والے تو سڑکوں پر تھے لیکن ان کے پیچھے ایجنسیاں تھیں جنہوں نے انہیں باہر نکالا۔ اتنا بڑا احتجاج کیوں کیا گیا؟ گاڑیوں کے شیشے تک ٹوٹ گئے۔ جرمنی کے سفیر تھے، ترکی کے سفیر تھے، دیگر ہمارے دوست ممالک کے سفیر تھے۔ ان کی گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے۔ اس جلوس کے اوپر پتھر مارے گئے اور وہاں ایک بھرپور مظاہرہ کیا گیا۔ لاہور کے مختلف علاقوں میں جلسے جلوس کیے گئے۔"

https://youtu.be/ZhrFbqLORtU

اپریل 1999 تک کارگل کے محاذ پر فوجی کمانڈو اور جہادی تنظیموں کے ارکان بھی ان دستوں میں شامل ہو چکے تھے۔ مئی کے پہلے ہفتے میں کشمیری چرواہوں نے پاکستانی فوجیوں کو پہچان لیا اور ان کے متعلق اطلاع بھارتی فوج تک پہنچائی۔ 21 مئی کو بھارتی جہازوں نے صورت حال کی تصاویر مرکزی کمان تک پہنچائیں تو انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔

مئی کے پہلے ہفتے میں کشمیری چرواہوں نے پاکستانی فوجیوں کو پہچان لیا اور ان کے متعلق اطلاع بھارتی فوج تک پہنچائی۔ 21 مئی کو بھارتی جہازوں نے صورت حال کی تصاویر مرکزی کمان تک پہنچائیں تو انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔

بھارت کی جوابی کارروائی اور پاکستان کی بے خبری

26 مئی کو بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستانی افواج کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی۔ بھارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی افواج نے کم از کم 130 مقامات پر ٹھکانے قائم کر رکھے تھے۔ پاکستانی دستوں نے اگلے ہفتے کی لڑائی کے دوران دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ بھارتی فوج نے بوفورس توپیں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، جو کامیاب رہا۔ دوسری جانب بھارتی بحریہ نے پاکستان کے تجارتی اور دیگر بحری جہازوں کے لئے ساحلوں تک پہنچنا مشکل بنا دیا۔ اس دوران سفارتی اور حکومتی سطح پر پاکستانی حکومت نے باقاعدہ فوج کی کارگل میں موجودگی سے بے خبری کا اظہار کیا تھا، اور اس کارروائی کی ذمہ داری کشمیری علیحدگی پسندوں پر ڈالی تھی۔

https://youtu.be/vDfiyWZJmcI

کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی تصویریں بھرتی ٹی وی پر

جب بھارتی افواج نے ایک مقام پر مقابلے کے بعد کیپٹن کرنل شیر خان کو مردہ حالت میں اپنی تحویل میں لیا اور ان کی پاکستانی وردی میں ملبوس تصاویر ٹی وی پر چلا دیں تو پاکستان کے پاس ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ عالمی سطح پر پاکستان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور جون کے وسط میں پاکستان پر جنگ ختم کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا۔ جب امریکی صدر کلنٹن کو پاکستان کی جانب سے سرگودھا میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس میزائلوں کی تیار حالت کی اطلاع ملی تو انہوں نے دفعتاً نواز شریف کو امریکہ طلب کیا (یہ محض افواہ تھی کیونکہ اس وقت تک پاکستان کے پاس ایسے میزائل موجود نہیں تھے)۔ 4 جولائی کو وزیراعظم نوازشریف نے واشنگٹن میں جنگ بندی اور پاکستانی فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا۔ مئی میں کارگل کے موضوع پر مشرف کے زیر صدارت منعقد شدہ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد ائر کموڈور عابد راؤ نے کہا تھا کہ اس آپریشن کے بعد یا تو کورٹ مارشل ہو گا یا مارشل لاء ہو گا۔

https://youtu.be/OvgMJqvntFg

ستمبر 99 میں بلائی جانے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں جنرل مشرف کی حرکات اور ’ممکنہ ارادوں‘ کے متعلق کوئٹہ کے کور کمانڈر، جنرل طارق پرویز نے وزیراعظم کو خبر دار کیا، جسکی پاداش میں مشرف نے طارق پرویز کو برخواست کرنے کی سفارش کی۔ اسی اثناء میں مشرف نے اپنے رشتے دار میجر جنرل شاہد عزیز کو DGMO مقرر کیا اور اس عہدے پر مقرر توقیر ضیاء کو کور کمانڈر منگلا تعینات کیا۔ چیف آف جنرل سٹاف، جنرل عزیز کی ہدایت پر کمانڈوز کی ایک کمپنی برگیڈئر امیر فیصل علوی کی قیادت میں راولپنڈی کے قریب دھمیال میں تعینات کی گئی اور مشرف کے سابقہ برگیڈ میجر، برگیڈیئر صلاح الدین ستّی کو 111 برگیڈ کی کمان سونپی گئی۔

(آخری قسط بروز پیر)