شوبز ستاروں کی پرویز مشرف سے محبت: سب ان کے گرویدہ ہیں

جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا ایک خاصہ یہ تھا کہ ان کو اپنے دورِ اقتدار میں پاکستان کے لبرل حلقوں اور شو بز کے ستاروں کی حمایت حاصل رہی۔ یوں تو فنکار طبقہ ہمیشہ سرکاری سرپرستی کا خواہاں رہتا ہے اور اپنے تعلقات حاکمِ وقت سے استوار رکھتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں کی جانے والی اصلاحات نے ٹی وی اور فلم انڈسٹری کو کافی حد تک فائدہ پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ ایکٹر شان نے کھل کے ان کی حمایت کی اور ان کو محب الوطن قرار دیا۔

اسی طرح وینا ملک بھی جنرل مشرف کی حمایت میں میدان میں کود پڑیں۔ وینا ملک پچھلے چند سالوں سے قلبِ ماہیت کا شکار ہیں۔

اسی طرح مہوش حیات جن کو حال ہی میں تحریکِ انصاف حکومت نے ان کی خدمات کے پیشِ نظر اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا، بھی جنرل مشرف کی حمایت میں ڈٹ گئیں۔

ماورا حسین بالی وڈ کی فلموں میں اپنے کریئر کو چمکانے میں مصروف رہی ہیں، لیکن آج انہوں نے بھی اپنی توجہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی طرف موڑ لی ہے اور انتہائی خلوص سے جنرل مشرف کی حمایت میں ٹوئیٹ کی ہے۔

فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ بھی اپنے جذبات اور غصے پر قابو نہ رکھ سکیں اور برملا کہا کہ جنرل مشرف کی پھانسی کا فیصلہ صریحاً غلط ہے۔

یہ فہرست تو بہت لمبی ہے لیکن ایسے کیا عوامل ہیں جو جنرل مشرف کو سلیبرٹیز میں اتنا مقبول بناتے ہیں؟ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جنرل مشرف خود ایک سوشل لبرل ہیں اور ان کی یہی ادا پاکستانی لبرلز کو بھی پسند آئی۔ انہوں نے جنرل مشرف کے دور کے اوائل میں کھل کر ان کا ساتھ دیا۔ جنرل مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کی اولین تصاویر میں سے ایک تصویر میں وہ اپنے کتوں کے ساتھ نظر آئے جو کہ بہت مشہور ہوئی۔ بعد ازاں مذہبی حلقوں کے خوف سے اس تصویر کو غائب کر دیا گیا۔ لیکن اس تصویر میں جنرل مشرف کی قائد اعظم کی اپنے کتوں کے ساتھ تصویر سے مماثلت نظر آئی اور اس نے جنرل ضیا کے ستائے ہوئے لبرل طبقات کو یہ یقین دلا دیا کہ جنرل مشرف پاکستان کے اتاترک ثابت ہوں گے۔

مشرف اتاترک تو نہ بن سکے، الٹا آج مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں۔



تاہم، یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنرل مشرف نے پاکستانی میڈیا کو عالمی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور انہوں نے پاکستان میں پرائیویٹ میڈیا کے فروغ میں ایک کردار ادا کیا جو تاریخ یاد رکھے گی۔ آج پاکستان میں 90 سے زائد میڈیا چینلز ہیں اور اس کا کریڈٹ کسی نہ کسی سطح پر جنرل مشرف کو جاتا ہے۔

اس پھلتی پھولتی انڈسٹری نے بہت سے فنکاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے اور پاپولر کلچر میں نئی جہتوں کو متعارف کروایا۔ جنرل مشرف کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کو از سرِ نو منظم کیا اور پاکستان نیشنل گیلری کی تعمیر بھی انہی کے دور میں مکمل ہوئی۔ اسی طرح دیگر ثقافتی اداروں کو بھی ان کے دور میں پروموٹ کیا گیا۔

پاکستان کی تباہ حال فلم انڈسٹری اور بے رونق سنیما گھر بھی جنرل مشرف کے دور میں دوبارہ آباد ہوئے جب اس وقت کی حکومت نے ہندوستانی فلموں کی نمائش کی اجازت دی۔ لوگ دوبارہ سنیما گھروں کو لوٹے اور پاکستان میں ایک نئی فلم انڈسٹری کا آغاز ہوا کیونکہ شائقین کو ایک بار پھر سنیما گھروں سے تفریح میسر آنے لگی۔

یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ بھی تھا جب پاکستان کی مڈل کلاس کے حجم میں بے پناہ اضافہ ہوا اور بیرونی امداد کی بہتات نے consumerism کو فروغ دیا۔ بینکوں نے اپنے آپریشن expand کیے، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ جاری ہونے لگے اور صاف پینے کا پانی میسر ہو نہ ہو، اے ٹی ایم مشین ہر جگہ نصب کر دی گئی۔ بیرونِ ملک سے آنے والے زرِ مبادلہ پر پلنے والی اس consumer کلاس نے پہلے کھل کر مشرف کا ساتھ دیا پر بعد میں جب ان سے نالاں ہو گئے تو انہوں نے اپنی محبتیں عمران خان کی جھولی میں ڈال دیں کیونکہ خان صاحب کی صورت میں ان کو ایک بے وردی مسیحا میسر آ گئے تھے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ جنرل مشرف کے عروج و زوال کی داستان بھی پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا نے رقم کی اور عمران خان کی مقبولیت کا سہرا بھی انہی ٹی وی چینلز کے سر ہے جو ہفتے کے سات دن بلاناغہ عمران خان صاحب کے فرمودات اور ارشادات سے عوام کے لہو کو گرماتے رہے ہیں۔



عین ممکن ہے کہ عمران خان کے زوال کی داستان بھی انہی ٹی وی سکیینز پر رقم کی جائے۔ کم از کم تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔

آخر میں اس امر کا ذکر بھی ہو جائے کہ پچھلی چار دہائیوں میں پاکستان کے تعلیمی نظام اور تدریس کے انداز نے ایک ایسی نسل کو پروان چڑھایا ہے جو تاریخ سے نابلد اور جمہوریت سے خائف ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو جمہوریت کی جدوجہد جو کہ ہنوز جاری ہے، سے بے خبر رکھا گیا۔ اس سیاست مخالف رجحان نے ہمارے شہری علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور فنکار اسی طبقے کے نہ صرف نمائندہ ہیں بلکہ یہی طبقہ ان کی مارکیٹ بھی ہے۔ اسی لئے جنرل مشرف کے احتساب میں رکاوٹ افواجِ پاکستان میں موجود غم و غصہ نہیں بلکہ پاکستان کا یہی بااثر متمول طبقہ ہے۔ یہ طبقہ نہ صرف جنرل مشرف کو پسند کرتا تھا اور آج عمران خان کو پسند کرتا ہے بلکہ آنے والے سالوں میں بھی وہ ایک مسیحا کا متلاشی رہے گا۔